پاک۔ایران گیس پائپ لائن پر امریکی اعتراضات، بریفنگ کیلئے وزارت خارجہ قائمہ کمیٹی میں طلب
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو طلب کیا ہے تاکہ وہ ایران ۔ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکا کی جانب سے مبینہ طور پر اٹھائے گئے اعتراضات پر پینل کو بریفنگ دے سکیں۔
ایران دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس نے ساڑھے 7 ارب ڈالر مالیت کے منصوبے میں ایک ہزار 150 کلو میٹر طویل پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر لیا ہے جہاں مارچ 2013 میں اس وقت کے صدور آصف علی زرداری اور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے چاہ بہار کے قریب ایرانی سائٹ گبد پر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔
پاکستان نے جنوری 2015 تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کا عہد کیا تھا تاہم فروری 2014 میں اس وقت کے وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ایران ۔ پاکستان منصوبہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے زیر التوا ہے۔
اس سال کے اوائل میں سابق وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے وضاحت کی تھی کہ گیس کی فروخت اور خریداری کے معاہدے کے تحت پاکستان معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر پوری طرح پابند ہونے کے باوجود حکومت ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پائپ لائن کی تعمیر شروع کرنے میں ناکام رہا ہے۔
حکام نے بتایا کہ پاکستان نے رواں سال کے اوائل میں امریکا سے مسئلے کے حل کے لیے درخواست کی تھی تاکہ توانائی کی کمی پر قابو پانے میں مدد مل سکے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں ملا۔
اگست میں پاکستان نے ایران کو گیس پائپ لائن کی تکمیل کے حوالے سے معاہدے کی ذمہ داریوں کو معطل کرنے کے لیے ’فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ‘ کا نوٹس جاری کیا تھا، سادہ الفاظ میں پاکستان نے ایران پر امریکی پابندیوں یا اس حوالے سے امریکا کی منظوری ملنے تک منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
یہ معاملہ آج سینیٹ پینل کے دوران زیر بحث آیا۔
پیٹرولیم کے ایڈیشنل سیکریٹری حسن یوسفزئی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایران کی جانب سے گیس پائپ لائن کی تکمیل کے حوالے سے 2024 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران سے اس معاملے پر دوبارہ بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ گیس کے حصول کے دیگر طریقے تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
سیکریٹری نے مزید خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان کو 20 ارب ڈالر کے واجبات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس معاملے کو امریکا کے ساتھ بھی اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے پینل کو بتایا کہ گوادر تک گیس پائپ لائن بچھانے پر 2 ارب ڈالر لاگت آئے گی، ایران کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے پر 18 ارب ڈالر کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد نے وزارت خارجہ کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ ہم پڑوسی ملک سے سستی گیس کیوں نہیں خرید سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں رکاوٹ کے پس پردہ عوامل جاننے چاہئیں۔
دریں اثنا، سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سعدیہ عباسی نے اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت کو کبھی بھی ایسی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جب ان پابندیوں عائد تھیں تو اس معاہدے پر دستخط کیسے ہوئے؟
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ یہ معاہدہ سابق صدر آصف زرداری کی حکومت میں ہوا تھا۔
ایرانی پائپ لائن کا مقصد یومیہ 750 ملین مکعب فٹ گیس فراہم کرنا تھا لیکن جب اس معاملے پر دستخط کیے گئے تھے تو امریکی حکام کی جانب سے عوامی اور سفارتی سطح پر اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔
پاکستان نے 2014 میں پائپ لائن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں یہ شرط شامل تھی کہ اگر اسلام آباد اس منصوبے کو ترک کرتا ہے یا اس سے پیچھے ہٹتا ہے تو اسے اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔