• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لندن آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا نہیں، نگران وزیراعظم

شائع September 26, 2023 اپ ڈیٹ September 27, 2023
نگران وزیراعظم انوار الحق لندن میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
نگران وزیراعظم انوار الحق لندن میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

نگران وزیراعظم انوار الحق نے کہا ہے کہ میری لندن میں کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ یہاں آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا ہے، میں یہاں حکومتی اور ریاستی امور سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں۔

لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس تجزیے میں کافی حد تک حقیقت کا پہلو نظر آتا ہے کہ 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ طے شدہ منصوبہ تھا کہ موجودہ عسکری قیادت پر کیسے سمجھوتہ کیا جا سکتا تھا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو گا تو اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ ایک منصوبہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ خالصتان کے رہنما کا بہیمانہ قتل ہندوتوا کی بیماری کا نتیجہ ہے جو اب خطے سے نکلتی جا رہی ہے، پہلے انہوں نے عیسائی، مسلمان، سکھ، جین سمیت ہر قسم کی اقلیتوں پر حملہ کیا اور انہوں نے ہندوتوا فاشسٹ انداز میں اپنی سوچ کا مظاہرہ کیا جس کے تحت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی جانیں لی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہندوتوا سوچ مغربی خطوں پر بھی پڑنا شروع ہو گئی ہے جہاں شمالی امریکا، کینیڈا اور یورپ کو بھی خطرہ لاحق ہو گا، پاکستان تو ہمیشہ سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے لیکن اب دنیا کو جاگ جانا چاہیے، میرا صوبہ بلوچستان خصوصی طور پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس میں ہزاروں لوگ جان بحق ہو چکے ہیں جس کو بھارت کے ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے سے فنانس کیا گیا اور وہاں دہشت گردی پھیلانے میں ان کی ریاست ملوث ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ شاید ہمارے لوگوں کا جان سے جانا باقی دنیا کے لیے اتنا اہم نہیں ہے اس لیے جب ان ملکوں کے شہریوں کو نشانہ بنایا جائے گا تو یہ بھی ہماری آواز میں آواز ملائیں، ان کو آواز ملانی پڑے گی کیونکہ ان کے پاس دوسری کوئی راہ نہیں ہے۔

ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گا اور بہت جلد تاریخ کے بارے میں سن لیں گے اور اس کا اعلان کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میری کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ یہاں آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا ہے، میں یہاں خصوصی طور پر حکومتی اور ریاستی امور سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس وقت نگران حکومت کو کون سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں تو نگران وزیر اعظم نے تین مرتبہ لفظ معیشت دہراتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ ہمیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا الیکشن پاک فوج کی زیر نگرانی ہوں گے تو انہوں نے واضح جواب دیا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ہوں گے، اس میں معاونت کے لیے نگران حکومت ہوگی جو ہدایات جاری کرے گی، عسکری، نیم عسکری اداروں سمیت جہاں جہاں جس حکومتی ادارے کی ضرورت ہو گی ہم ان کو ہدایات جاری کریں گے کہ انہیں کہاں معاونت کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صاف اور شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس مقامی اور بین الاقوامی مبصرین ہوں گے، اگر بین الاقوامی اور مقامی مبصرین اور میڈیا، سول سوسائٹی نسبتاً یہ اشاریے دیتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنا کام پورا کر لیں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان کے بغیر انتخابات ہو سکتے ہیں تو انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میرے پاس غیب کا علم نہیں کہ آنے والے الیکشن کس کے ساتھ اور کس کے بغیر ہوں گے، بار بار اس کو گھما پھرا کے اور مجھ سے منسوب کر کے ایسے جملے جوڑے جانے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے نہ میرا مقصد ہوتا ہے، بعض اوقات پورے پیراگراف میں سے آدھے جملے لے کر سرخی بنائی جا رہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے میں ایک ترجمان ہر اخبار یا چینل کے لیے رکھوں کہ یہ جو کچھ میں نے بین الاقوامی پریس میں کہا ہے اس کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے اس کو چھاپے، بدقسمتی ہے لوگوں کو غلط حوالہ دیا جاتا ہے، گمراہ کیا جاتا ہے، عمران خان انتخابات میں حصہ لے سکیں گے یا نہیں لے سکیں گے تو اگر قانون کسی بھی شخص چاہے وہ کوئی بھی سیاسی رہنما ہو، اس کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے گا تو وہ حصہ لے گا اور اگر نہیں دے گا تو نہیں لے گا، نگران حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ یہ بات نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ معاملات سیاسی نہیں قانونی ہیں، جہاں تک قوانین اور پروسیجرز کا تعلق ہے تو اس کو نہ میں تبدیل کر سکتا ہوں اور اگر میں کرنا بھی چاہوں تو میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

9 مئی کے مرکزی ملزم کی اڈیالہ جیل منتقلی اور ممکنہ ڈیل سے متعلق سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ کوئی ڈیل نہیں ہے، میڈیا بھوکا ہے اور اس کو اس طرح کا مواد چاہیے ہوتا ہے، اس طرح کی افواہیں اس کا حصہ ہوتی ہیں تو میں اس سے زیادہ اس کو اہمیت نہیں دیتا۔

انہوں نے کہاکہ ہم پر آئی ایم ایف کا ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو، ہماری اپنی سوچ بھی یہی ہے کہ ٹیکس نیٹ ورک بڑھایا جائے، جو لوگ ٹیکس نیٹ ورک میں ہیں ان کی پروگریسو ٹیکسیشن کی جائے، برابری کی بنیاد پر سب پر ٹیکس لگایا جائے، دوسروں کو بھی ٹیکس دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ہم پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ڈالا کہ ہمیں لازمی نج کاری کی طرف جائیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وہ سرکاری ادارے جن کو ہم سبسڈی دیتے تھے وہ اس جگہ پر پہنچ گئے ہیں کہ خدا نخواستہ پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے، تو اس سے بچنے کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام اداروں کی نجکاری کریں گے تو اس سے نہ صرف ہمیں فنانس ملے گا بلکہ ہم سبسڈی سے بھی بچ جائیں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ 9مئی کے واقعات میں عمران خان کو سزا ہو جاتی ہے تو کیا ان کو ایک سابق وزیراعظم کی حیثیت سے سزا ہونی چاہیے تو انوار الحق کاکڑ نے جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان واقعات میں میرا ہاتھ ہو اور میرے اوپر عدالتیں یہ ثابت کریں تو انوار الحق کاکڑ کو بھی سزا ہونی چاہیے، اگر میں اپنی سزا کا حامی ہوں تو کسی اور صاحب کے لیے کیوں نہیں ہوں گا، اگر آپ ریاست کو انارکی کی طرف لے کر جائیں گے تو نہ معاشرہ رہے گا نہ جمہوریت رہے گی، ہمارا کسی قسم کا نظام حکومت نہیں رہے گا بلکہ ہم انتشار کا شکار ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024