پاکستان کی ’غیر مستحکم‘ معاشی حالت کے باعث اشرافیہ بھی محدود ہورہی ہے، برطانوی پروفیسر
آکسفورڈ یونیورسٹی میں اکنامک پالیسی کے پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت ’غیر مستحکم‘ ہے اور یہاں تک کہ اس کی وجہ سے اشرافیہ بھی محدود ہورہی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جمعہ کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے اشرافیہ کے معاملات اور پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اشرافیہ کے معاملات کی معاشیات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کم ٹیکس وصولی، زیادہ سبسڈی، کم بچت اور سرمایہ کاری توازن کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے غیر معقول پالیسی اقدامات باقاعدگی سے میکرو اکنامک اور مالی بحران کا باعث بنتے ہیں اور بیرونی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے کہا کہ طویل مدتی نمو اور ترقی کے لیے سیاست اور معاشی پالیسیوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معیشت پر ریاست کے مختلف اعضا کے درمیان مشترکہ بنیاد بنانے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ شناخت کی بنیاد پر جمود ناقابل برداشت ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہاں تک کہ اشرافیہ بھی اب محدود ہو رہی ہے۔
پروفیسر کے مطابق اقتصادی پالیسیوں کو سیاسی توازن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، نمو اور ترقی کے لیے اشرافیہ کے معاملات کے بہتر ظہور کے لیے مراعات کا ایک مجموعہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے ’دانشمندانہ‘ میکرو اکنامک مینجمنٹ کی بنیاد رکھنے کی ضرورت اور مقدمات کے سیاسی استحصال اور ٹیکس کوڈز کو آسان بنانے کے بجائے ٹیکس وصولی میں آٹومیشن اور شفاف آڈٹ پر زور دیا۔
برطانوی حکومت کے شعبہ بین الاقوامی ترقی کے سابق چیف اکنامسٹ پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے بھارت، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کی مثالیں پیش کیں جو پاکستان جیسے چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی معیشتوں کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے 1990 کی دہائی میں بھارت اور بنگلہ دیش، 1970 کی دہائی میں انڈونیشیا اور 1979 میں چین کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’تجربہ یہ سکھاتا ہے کہ وقتی بحران ہو سکتا ہے اور پاکستان اس وقت بحران کا شکار ہے۔‘
پروفیسر اسٹیفن ڈیرکون نے کہا کہ تمام ممالک میں کامل ادارے نہیں ہوتے اور وہاں گورننس، سیاسی اور بدعنوانی کے مسائل ہوتے ہیں، تاہم ایسے ممالک بھی ہیں جو ترقی کرتے ہیں کیونکہ وہاں سیاسی نظام موجود ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے جی ڈی پی میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بنگلہ دیش اپنی ڈرامائی اور دھیمی پیشرفت کے ساتھ اس پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ گھانا جیسے ممالک جن کی اسی طرح کی جی ڈی پی اور فی کس آمدنی ہے جیسی پاکستان کی 1990 میں تھی، وہ بھی جی ڈی پی کے لحاظ سے اب بھارت جیسے نظر آتے ہیں۔‘
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے معاشی پالیسیاں تجویز کیں اور میکرو اکنامک استحکام پر توجہ مرکوز کی۔
بعد ازاں انہوں نے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کے ہمراہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سے ملاقات کی۔