شرمین عبید چنائے کے پروجیکٹ کے تحت 19 خواتین فلم سازوں کی دستاویزی فلمیں تیار
’آسکر‘ اور ’ایمی‘ ایوارڈز یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے نے اپنے پروگرام ’پٹاخا پکچر‘ کے تحت سندھ اور بلوچستان کی 19 خواتین فلم سازوں کی جانب سے تیار دستاویزی فلموں کی نمائش کرتے ہوئے فلمسازوں کی کوششوں کو سراہا۔
شرمین عبید چنائے نے ’پٹاخا پکچر‘ کا منصوبہ گزشتہ برس شروع کیا تھا اور اس کے تحت جنوری 2022 میں پہلی بار ملک بھر کی 10 خواتین فلم سازوں کو 12 ہفتوں کی تربیت اور معاونت فراہم کی گئی تھی۔
تین ماہ تک جاری رہنے والے ’مینٹور شپ‘ پروگرام کے دوران منتخب ہونے والی 10 خواتین فلم سازوں نے منصوبے کے تحت 10 منٹ کی دستاویزی فلمیں تیار کی تھیں۔
کچھ عرصہ قبل 2022 میں شرمین عبید چنائے نے پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور تعلیم و آگہی نامی سماجی تنظیم کے تعاون سے ’پٹاخا پکچر‘ کے بینر تلے ’مینٹور شپ‘ کے تیسرے پروگرام کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت سندھ اور بلوچستان کی 19 خواتین فلم سازوں کو مواقع فراہم کیے گئے۔
ان فلم سازوں نے جوڑی کی صورت میں مجموعی طور پر 10 فلمیں تیار کی ہیں۔
اس حوالے سے کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے تعاون سے ’خواتین فلم میکرز‘ کے نام سے اختتامی تقریب منعقد کی گئی جس کی میزبانی شرمین عبید چنائے نے کی۔
اس تقریب کا مقصد ’پٹاخہ پکچرز‘ کے پلیٹ فارم کے تحت علاقائی ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
خواتین فلم سازوں کی جانب سے تیار کی گئی 20 سے 30 منٹ کے دورنیے کی 10 دستاویزیں فلموں کی جھلک تقریب میں دکھائی گئی۔
19 خواتین فلم سازوں نے ان دستاویزی فلم کی تخلیق کے لیے شوٹنگ میں حصہ لیا، کئی ماہ تک انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور دستاویزی فلمیں تیار کیں جبکہ آن لائن فلم سازی کی ورکشاپ میں بھی شرکت کی۔
اس کے علاوہ اکیڈمی آف موشن پکچر سائنسز کے سابق ممبر، اور اسکاٹش ڈاکیومینٹری انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر نو مینڈیل کی جانب سے منعقد کی گئی ایڈٹنگ ورکشاپ میں بھی خواتین فلمسازوں نے تربیت حاصل کی۔
شرمین عبید چنائے نے ان خواتین کو مالی مدد بھی فراہم کی اور دستاویزی فلموں کے ذریعے اپنی کہانیاں سنانے کے لیے درکار مہارت بھی سکھائی۔
20 سے 30 منٹ کے دورنیے کی 10 دستاویزیں فلموں میں ’طوفان کے بعد خاموشی‘، ’کراچی بیگمز‘، ’نسوان نامہ-ویمن، تھیٹر، ایکٹیوزم- پاکستان سے ایک کہانی‘، ’نیئر-ایک آرٹ کہانی‘، ’میڈ وِد لوو‘، ’اسکلپٹڈ‘ ، Defiance’، ’پہچان‘، ’تم نہیں چارا گر‘، ’کاوش‘ اور ’From Rocks to Gold – Doch The Art of Balochistan‘ شامل تھیں۔
ان 19 فلم سازوں میں سے ایک فلم ساز رانی واحدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے فلم سازی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ فلم سازی خود سیکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ میرا تعلق افغانستان سے ہے اس لیے میں میں کبھی اسکول نہیں گئی، افغانستان میں طالبان لڑکیوں کو تعلیم دینے کے حق سے محروم رکھتے تھے، دوسروں بچوں کو ABC سنتے ہی میں نے خود پڑھنا اور بولنا سیکھا ہے، میں نے کوڑے دان میں رکھے اخبار کو اٹھا کر خود پڑھنا سیکھا ہے۔‘
دیگر 19 خواتین فلم سازوں میں علینہ رضوان، علینہ اظہر، اقصیٰ عبدالقادر، امت اللہ سعید، کائنات تھیبو، عائشہ ابڑو، زینب آصف، ایمن خان، مہوش سعید، سائرہ بلوچ، رانی واحدی، مشال بلوچ، یمنہ وقار، نفیسہ علی اور زینب یونس شامل ہیں۔
تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے امریکی قونصل جنرل کونراڈ ٹرائبل نے کہا کہ وہ فلم سازوں سے مل کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلم سازی کے منصوبے کو فروغ دینے اور خواتین فلم سازوں کے عزائم کو زندہ رکھنے میں کی جانے والی کوششوں میں ہمیں فخر ہے۔