• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

یقین دلاتا ہوں پی آئی اے بند نہیں ہوگی، نجکاری کا زیرالتوا عمل مکمل کریں گے، فواد حسن فواد

شائع September 21, 2023
فواد حسن فواد نے کہا کہ نگران حکومت اپنے مینڈیٹ سے آگے نہیں بڑھے گی—فوٹو: ڈان نیوز
فواد حسن فواد نے کہا کہ نگران حکومت اپنے مینڈیٹ سے آگے نہیں بڑھے گی—فوٹو: ڈان نیوز

نگران وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی) بند نہیں کر رہے ہیں تاہم وہ تمام ادارے جن کی نجکاری کا عمل پہلے ہی شروع ہوچکا ہے وہ مکمل ہوگا

نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے نگران وزیراطلاعات و نشریا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ غیرضروری پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ نگران حکومت نجکاری کا کوئی ایجنڈا لا رہی ہے جو آئین اور قانون ہمیں نہیں دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری وزارت نجکاری ہے اور یہ اختیار ہم نے اپنے لیے فرض نہیں کیا بلکہ ترمیم میں ایک شق شامل کی ہے کہ نگران حکومت کا اختیار بڑھا دیا گیا ہے اور اس پر تفصیل سے بات کی جاچکی تھی اور بتایا گیا تھا کہ نگران حکومت عمل کے تسلسل کے لیے جاری رکھے گی۔

انہوں نے کہ ایک بات سب کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ نجکاری کے ہر عمل میں وقت مقرر ہے اور اس کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا ہے، یہاں تک سنا کہ فواد حسن فواد کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ تین مہینوں میں پی آئی اے بند کردیا جائے۔

’افواہوں سے اداروں کی قدر متاثر ہوتی ہے‘

فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلے دن آیا تو پتا چلا کہ پی آئی اے اپنی پروازیں برقرار رکھنے کے لیے جون سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ہم نے وزیرخزانہ کی مدد سے وہ کام 48 گھنٹوں میں پورا کیا اور آج پی آئی اے کی پروازیں جاری ہیں اور اس کے لیے منصوبہ بندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لسٹڈ کمپنیاں اور اس کی ایک قدر ہے لیکن اس طرح کی افواہوں سے وہ قدر متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج جو کام کر رہے ہیں، اس کا اختیار منتخب حکومت ہمیں دے کر گئی ہے اور ہم نے اپنے لیے کوئی اختیار کا نہیں سوچا لہٰذا یہ کہنا کہ اس حکومت کا نجکاری کا کوئی ایسا ایجنڈا ہے تو یاد رہے کہ ان کمپنیوں کی نجکاری کا عمل مختلف مراحل میں ہے اور یہ سلسلہ 2001 سے شروع ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت نے کسی کمپنی یا ادارے کا اضافہ نہیں کیا کیونکہ یہ ہمارے مینڈیٹ میں نہیں ہے، اگر ایسا کام کریں گے تو غلط ہوگا لیکن جو ادارے اور کمپنیاں منتخب حکومتیں نجکاری کی فہرست میں ڈال چکی ہیں، اس عمل کو آگے بڑھانا ہمارے پاس جب تک مینڈیٹ ہے وہ ہمارا اختیار ہے اور ہمارا کام اس دوران اس عمل کو چلتے رکھنا ہے۔

’جو نجکاری پچھلی حکومتیں کرکے گئی ہیں وہ عمل پورا کریں گے‘

نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ پچھلے دو سال میں بھی نجکاری کے جو کام کیے جاچکے ہیں اس کی ٹرانزیکشنز بھی اب تک نہیں ہوسکی ہیں کیونکہ کہیں پر مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان جھگڑا ہے، کہیں حصص کنندگان کا جھگڑا ہے، یہاں تک جو نجکاری پچھلی حکومتیں کر کے گئی ہیں اس کو ہم پورا کر رہے ہیں، فہرست میں موجود اداروں کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ادارے نجکاری کے عمل سے گزر چکے ہیں لیکن کسی قانونی پیچیدگی یا عمل کی غلطی کی وجہ سے اب تک مکمل نہیں ہوئے ہیں اس عمل اور قانونی خامیوں کو دور کر کے اس مل کو مکمل کر رہے ہیں۔

نجکاری کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان نقصانات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اس وقت حکومت اور وزارت خزانہ پر ہر طرف سے منہ کھولے ہوئے ہیں، جو حکومت اور عام آدمی پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے خسارے میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا بوجھ سب سے زیادہ عام آدمی برداشت کرتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی ہوتی ہے اور قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور خسارا جتنا بڑھتا جاتا ہے کہ اس سے حکومت کی سبسڈی دینے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔

’نگران حکومت کو اختیار منتخب حکومت نے دیا‘

فواد حسن فواد نے سینیٹر رضا ربانی کے بیان سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ میں ان کا احترام کرتا ہوں اور آئین میں نگران حکومت کا ذکر ہے اور اس کے بعد تمام شقیں الیکشن ایکٹ میں ہیں لیکن اب نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، جس میں نجکاری سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے پر توجہ میرے خیال میں اس لیے زیادہ ہے کیونکہ پی آئی اے پر دلچسپی زیادہ ہے ورنہ ہماری توجہ دیگر تمام اداروں پر ہے لیکن ہم اس میں اولین ترجیح کسی ادارے پر اس لیے دے رہے کہ جو زیادہ نقصان کا باعث بن رہا ہے اور اس کو جلد سے جلد کم کیا جائے۔

’پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے لیے ایک کمپنی رہ گئی ہے‘

پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں عمل شروع ہوا اس کے نتیجے میں چین کی 4 پارٹیاں سامنے آئیں اور اس دوران کورونا کی وجہ سے معیشت خراب ہوئی اور وہ کمپنیاں اب دلچسپی نہیں رکھتیں کیونکہ عالمی اور مقامی سطح پر اسٹیل کی طلب میں خاصی کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک کمپنی اب بھی موجود ہے اور ہم صرف ایک کمپنی سے معاملات کر رہے ہیں اور دوبارہ بات کریں گے لیکن میرا ذاتی مؤقف رہا ہے کہ کبھی بھی سنگل پارٹی بولی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے یہ فیصلہ کابینہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیل مل کی جو نجکاری کر رہے ہیں اس میں صرف ان آپریٹیو اثاثوں کی ہے جو اسٹیل ملز کا حصہ ہیں، بلڈنگ، اسٹرکچر، مشین اور وہ زمین جس پر یہ چیزیں واقع ہیں اور دیگر زمین اس نجکاری کا حصہ نہیں ہے۔

’عوام کا حق ہے کہ انہیں بہتر ایئرلائن میسر ہو‘

نگران وزیر نجکاری نے پی آئی اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کا حق ہے انہیں ایسی ایئرلائن میسر ہوں جو پاکستان سے مطلوبہ منزل تک کم وقت میں لے جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر 96 سب سے زیادہ فائدہ مند روٹس ہونے کے باوجود ایک ایئرلائن اربوں روپے کا سالانہ خسارہ کر رہی ہے تو بیرون ملک پاکستانی 8 گھنٹوں کے بجائے تقریباً 20گھنٹوں میں منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اور بیرونی ایئرلائنز کا ٹکٹ خریدتے ہیں تو پیسے وہاں چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ پی آئی اے بند نہیں ہوگی، جس دن میں آیا تھا اس دن پی آئی اے بند ہونے والی تھی جبکہ نگران وزیراعظم نے بھی ہدایت کی تھی کسی صورت پی آئی اے بند نہیں کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ادارہ بند ہوجاتا ہے مثلاً یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ پی آئی اے بند ہوجائے اور اس کے باوجود ملازمین کو ایک جہاز دیا جائے تو ان کے پاس پرواز نہیں ہوگی لیکن پی آئی اے ضرور ہوگی، کسی ملازم کو نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ان کو ردوبدل کیا جا رہا ہے اور ان کے لیے رضاکارانہ مواقع تیار کیے جائیں گے اور ان پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے ہر فیصلے کا جواب دہ ہوں اور احتساب کے لیے تیار ہوں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جس کا بوجھ اٹھانے کے لیے دوسرا کوئی تیار نہیں ہوتا، اگر پاکستان نے ان خسارہ دینے والے اداروں سے جان نہیں چھوڑی تو ہم شاید موجودہ حالات سے زیادہ خراب حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

’مسلم لیگ (ن) سے تعلق ہوتا تو 2022 میں حکومت کا حصہ بنتا‘

فواد حسن فواد سے سوال کیا گیا کہ آپ کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے جوڑا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ اپنے سرکاری نوکری میں 35 سال کام کیا اور تقریباً 11 سال بلوچستان میں کام کیا تو میرا تعلق نواب ذوالفقار مگسی سے بھی جوڑنا چاہیے، سردار اختر مینگل سے بھی جوڑنا چاہیے، نواب اکبر بگٹی، تاج حیدر جمالی سے بھی جوڑنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی یا چند لوگوں کی مرضی پر ہے میرا تعلق کسی سے بھی جوڑے لیکن تاریخ دیکھ لیں تو جب اپریل 2022 میں حکومت بنی تھی تو میں نے اس حکومت میں شمولیت نہیں کی تھی، اگر میں مسلم لیگ کا حصہ ہوتا تو کیوں اس حکومت میں شامل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے ساتھ سول سرونٹ کام کرتے ہیں وہ فیصلہ وہ خود نہیں کرتے بلکہ عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کون حکومت کرے گا اور سول سرونٹ پر لازم ہے کہ وہ ان کے احکامات پر عمل کریں۔

فواد حسن فواد نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ یہ ذمہ داری لیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں یہ دورانیہ مختصر ہے کیونکہ نجکاری کا عمل طویل ہے اور کابینہ سے منظوری لینے کے بعد عمل مکمل کرنا پڑتا ہے۔

الیکشن کمیشن کا اعلان خوش آئند ہے، مرتضیٰ سولنگی

نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان خوش آئند ہے، افواہیں پھیلانے والوں کے لیے آج مایوسی کا دن ہے، ہمیں خوشی ہے کہ ملک میں آئین کے تحت انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت اس ملک کو اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن 30 نومبر تک تمام کام مکمل کرلے گا اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے 54 دن دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات ہوں گے، جو ایک بڑی خبر ہے، ہمیں خوشی ہے کہ ملک میں آئین کے تحت انتخابات ہوں گے، انتخابات کے انعقاد سے ملک میں معاشی ترقی و سیاسی استحکام میں اضافہ ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024