ارشد شریف قتل کیس: گواہان کی عدم پیشی پر کیس کی کارروائی روک دی گئی
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے صحافی ارشد شریف قتل کیس میں گواہان کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث کیس کی کارروائی روک دی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے گزشتہ سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی کارروائی روک دی گئی ہے اور گواہان کی عدم پیشی اور عدم دلچسپی کے باعث کارروائی کی فائل ریکارڈ روم بھیج دی گئی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 16 مارچ کو ارشد شریف قتل کیس میں عدالت کو تعزیرات پاکستان کے سیکشن 512 کا چالان موصول ہوا، 5 اپریل کو بیانات ریکاڑ کرانے کے لیے عدالت نے گواہان کو طلبی کے نوٹسز بھیجے۔
عدالت نے کہا کہ متعدد بار بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے گواہان کو طلب کیا گیا لیکن کوئی پیش نہیں ہوا، کیس میں گواہان کی بیان ریکارڈ کروانے میں دلچسپی نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ 15 مرتبہ پراسیکیوشن کو ثبوت جمع کروانے کا موقع دیا گیا، گزشتہ سماعت پر پراسیکیوشن کو نوٹس دیا کہ کیوں نہ فائل ریکارڈ روم بھیج دی جائے، پراسیکیوٹر کے مطابق پرائیویٹ اور سرکاری گواہان بیانات ریکارڈ کروانے عدالت نہیں آرہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ارشد شریف قتل کیس کی کارروائی روک دی جاتی ہے، گواہوں کی پیشی کی صورت میں پراسیکیوشن نئی تاریخ کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آئندہ احکامات تک ارشد شریف قتل کیس کی فائل ریکارڈ روم بھیج دی جاتی ہے۔
ارشد شریف قتل کیس
معروف صحافی ارشد شریف گزشتہ سال اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا میں اس سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔
اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔
قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا کی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔
کینیا کی پولیس نے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’این پی ایس اس واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔
کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔
بعد ازاں اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ تھانہ رمنا میں پولیس کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34 کے تحت درج کیا، جس میں خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمد وصی کو نامزد کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ انسپکٹر میاں محمد شہباز اطلاع ملنے پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچے جہاں ارشد شریف کا جسد خاکی بیرون ملک سے پاکستان پہنچایا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ارشد شریف کا میڈیکل بورڈ کے ذریعے پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بورڈ نے نمونوں کے 4 پارسلز اور ایک سکہ گولی کا نمونہ حوالے کیا، تاہم اس وقت پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی جبکہ جسد خاکی لواحقین کے حوالے کردیا گیا۔
پولیس نے کہا تھا کہ ارشد شریف کا قتل بیرون ملک ہوا اور اس کی انکوائری اعلیٰ سطح پر ہو رہی ہے جبکہ میڈیکل بورڈ کی جانب سے دیے جانے والے نمونوں کے پارسل تھانے میں رکھے گئے ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت آتشیں اسلحے کا فائر لگنے سے ہوئی۔