اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ ممکن ہے کہ قارئین کو اس سلسلے کی پہلی قسط مُشکل لگی ہو کیونکہ ارضیاتی تاریخ اور اُس میں استعمال ہونے والے سائنسی نام کچھ زیادہ ہی مشکل تھے۔ ہماری مجبوری یہ تھی کہ ارضیاتی تاریخ کو ہم چھوڑ نہیں سکتے تھے کیونکہ اُس کو بیان کیے بغیر یہ سلسلہ بالکل بے مقصد رہ جاتا۔ بالکل ایسے درخت کی طرح جس کی جڑوں کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ ایسے درخت کے لیے ہم زیادہ پُر اُمید نہیں ہوتے کہ وہ اچھی چھاؤں یا ثمر دینے والا درخت ہوگا۔
ہم کوشش کریں گے ہم اس قسط کو تھوڑا آسان زبان میں بیان کریں اور اسے دلچسپ بنا سکیں۔
آرکیالوجی پر تحقیق کرنے والوں کے مطابق سندھ اور بلوچستان کے میسولتھک لوگوں کو سمندر اور ماحول نے اچھا شکاری بنادیا ہوگا اور وہ یقینی طور پر جانوروں کا شکار کرتے ہوں گے اور گہرے پانیوں سے مچھلیاں بھی پکڑتے ہوں گے۔ وہ زیادہ ترقی کی جانب مسلسل بڑھ رہے تھے۔ سندھ میں آخری پالیولتھک زمانے سے متعلق ڈاکٹر خان کہتے ہیں کہ ’ملیر وادی کی مختلف برساتی گزرگاہوں کے کناروں سے، حب ندی کے کنارے، کونکر اور ریڑھی میان کے قریب واگھوڈر سے جو اوزار ملے ہیں وہ مُڑے ہوئے ہیں اور انتہائی تیز کاٹ رکھنے والے ہیں۔ کچھ اوزار تو ان زمانوں سے بھی قدیم ہیں‘۔
ایک اور قدیمی سائٹ جو ’بازار نئے‘ کے کنارے ’الھڈنو گوٹھ‘ کے نام سے موجود تھی۔ اس کے متعلق گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ’میمن گوٹھ سے ڈملوٹی جاتے ہوئے ایک قدیم سائٹ گوٹھ الھڈنو جوکھیو کے نام سے مشہور ہے یہاں 1973ء میں کھدائی ہوئی تھی جہاں سے نوادرات کے ساتھ، ایک سینگ والے یوٹوپیائی جانور (Unicorn) کے نشان والی مہریں بھی ملی تھیں‘۔
موکھی، سونگل، گجرو اور اورنگی، لیاری برساتی بہاؤ کے معاون نالے ہیں چونکہ یہ مرکزی بہاؤ اور یہ نالے فقط برساتی نالے ہیں اس لیے یہ بارشوں کے موسم میں ہی ایکٹو ہوتے ہیں۔ لیاری ندی کے میدان میں زراعت کے لیے زیرِزمین موجود پانی استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس کے دونوں کناروں پر زراعت ہوتی تھی اور اس بہاؤ کے بالائی علاقوں پر اب تک زراعت ہوتی ہے۔
لیاری کے قرب و جوار میں زمانہ قبلِ مسیح کی انسانی زندگی کی نشانیوں کا ماہرینِ آثار قدیمہ نے پتا لگایا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ تہذیب دریائے لیاری کے اردگرد اور دریائے حب کے علاقے تک پھیلی ہوئی تھی کیونکہ یہاں بارشوں کی صورت میں میٹھے پانی کی فراوانی تھی اور ساتھ ہی یہاں سمندر بھی تھا اس لیے ہم اُمید کرسکتے ہیں کہ نو حجری (Neolithic) دور کی ابتدا اس علاقے سے ہوئی ہوگی بالکل ایسے ہی جیسے دریائے سندھ، بولان، نیل، دجلہ و فرات کے کناروں پر زرعی زمانے کی داغ بیل پڑی اور ملیر کی طرح اس وادی میں بھی ارتقا پانے والے انسان نے تقریباً ساڑھے 4 ہزار قبل مسیح میں اپنے لیے ابتدائی گھاس پھوس کے گھر بنائے ہوں گے اور اُن کے تحفظ کے لیے لکڑیوں یا کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ بنانے کی ضرورت محسوس کی ہوگی۔
اسی دور میں انسان نے خوراک ڈھونڈنے کے لیے مچھلی اور دوسرے جانوروں کا آسان شکار کرنے کا سوچا ہوگا اور اُس شکار کو حاصل کرنے کے لیے پتھروں کے مختصر سے اوزار بھی بنائے ہوں گے۔ لیاری اور ملیر کی وادیوں میں قدیم بستیوں کی کھوج سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نو حجری دور کی ثقافتی باقیات چمکیلے پتھر کے اوزاروں اور ہتھیاروں کی صورت میں وادی لیاری اور دریائے حب تک کے وسیع علاقوں میں باکثرت ملے ہیں۔
جامعہ کراچی سے ملحقہ علاقے میں ایک بستی کے آثار میں تانبے کے دور (آثار قدیمہ کے ماہر زمانہ قبل از تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً سب سے قدیم پتھر کا زمانہ تھا۔ پھر پتھر کے نئے زمانے کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد تانبے کا زمانہ آیا۔ پھر کانسی کا زمانہ اور سب سے آخر میں لوہے کا زمانہ جو اس وقت چل رہا ہے۔ سب سے پہلے زمانے میں لوگ پتھر کے ہتھیار استعمال کرتے تھے پھر دوسرے زمانے میں پتھر کے خوبصورت ہتھیار بننے لگے۔ تیسرے میں تانبے کے اور چوتھے میں برنج کے ہتھیار وجود میں آئے اور اب ہر اوزار اور ہتھیار لوہے سے تیار کیا جاتا ہے) سے مشابہت رکھنے والے متوازی دھار والے پتھر کے چاقو دریافت ہوئے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ لمبائی تقریباً سوا انچ ہے۔ ان میں اکثر دندانے دار ہیں یعنی جن کو گِھس کر خوبصورت بنایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ تین پتھر سے بنی ہوئی تیروں کی نوکیں بھی ملی ہیں۔
اس جگہ سے ملنے والے ایسے ہی پتھر کے دیگر اوزار ان سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔ ان سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہاں کے ہنر مند دوسری ہم عصر تہذیبوں سے کچھ زیادہ سوچتے تھے اور اچھے ہنرمند تھے کیونکہ انہوں نے ہتھیاروں کو مزید نوک دار بنا کر ان کی کارکردگی میں اضافہ کردیا۔ اس بستی سے پتھر کی ایک ایسی رانپی بھی ملی ہے جو چمڑے کو کھرچنے کے کام آتی ہوگی۔ یہاں گلابی رنگ کی ٹھیکریاں بھی ملی ہیں جو یقیناً آگ میں پکے ہوئے برتنوں کی ہیں اس کے علاوہ یہاں سے جنگلی خنزیروں کی ہڈیاں بھی ملی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب کی کراچی پر کی گئی اہم کھوج اور اس پر پائلو بیگی کی تفصیلی رپورٹس کو پڑھنے سے پہلے میرے سامنے 1953ء میں اے ایل باشم کی مشہور ضخیم کتاب The Wonder That Was Indi اور ساتھ میں یحییٰ امجد کی ’تاریخ پاکستان‘ (قدیم دور) بھی موجود ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی کھوج کو سمجھنے کے لیے ہم ان دونوں صاحب کی کتابوں سے مدد لے لیتے ہیں۔ مگر تاریخ، تحقیق اور مشاہدات کے جزیرے پر اُترنے سے پہلے ہمارے ذہن میں گزرے زمانوں کی تصویر بالکل صاف ہونی چاہیے۔ اگر تاریخ کے متعلق ہماری سوچ سائنسی بنیادوں پر نہیں ہوگی تو ہمیں اس سفر میں مشکلات پیش آئیں گی۔ دراصل تاریخ بے جوڑ واقعات، افراد کی زندگیوں اور اتفاقات و حوادث کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ یہ مادی حالات کے ارتقا کے شانہ بشانہ سبب اور نتیجے کے رشتے سے جنم لینے والے قابل فہم اور مربوط حالات کا ارتقا ہے۔
باشم صاحب لکھتے ہیں کہ ’مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب ہندوستانی، پاکستانی اور سنہالی قارئین کے لیے یقیناً مُفید ثابت ہوگی۔ دریائے سندھ (جو اب پاکستان میں ہے) کے بہاؤ پر قدیم ترین تہذیب تھی اور اسی نے ہندوستان کو ہندوستان کا نام دیا۔ اب دریائے سندھ کا نشیبی حصہ جو پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہے بنجر ریگستان سے ہوکر گزرتا ہے حالانکہ کسی زمانے میں یہ ایک سیراب اور زرخیز علاقہ تھا۔ قبل تاریخ زمانے کے یورپ کی طرح پاک و ہند کے شمالی علاقوں کو بھی برفانی ادوار سے گزرنا پڑا اور ان ادوار کے دوسرے دور (یعنی دوسرے برفانی دور) بعد 4 لاکھ سال قبل مسیح اور دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیان ہمیں انسان کی زندگی کے آثار سون ویلی (پوٹھوہار، کراچی سے 1262 کلومیٹر شمال مشرق میں دریائے سندھ کے کنارے) میں دریافت ہوئے ہیں۔ اس وادی سے ہمیں تمدن کے سنگی دور کے پتھر کے بنے ہوئے اوزار ملے۔
اس تمدن کو یہ نام اس چھوٹے سے دریا کی وجہ سے دیا گیا جو پنجاب میں ہے جہاں یہ آثار باکثرت پائے جاتے ہیں۔ اپنی ساخت کے اعتبار سے یہ اوزار قدیم دور یعنی انگلستان سے لےکر افریقہ اور چین کے اوزاروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اب اگر ہم جنوب کی بات کریں تو وہاں بھی قبل تاریخ زمانے کے پتھر کی صنعت کا وجود تھا اور اندازاً یہی وہ زمانہ رہا ہوگا جو ہمیں سون وادی میں ملتا ہے۔ جنوب میں یہ تمدن رکھنے والے لوگ پتھروں میں شگاف کرکے اوزار بالخصوص عمدہ کلہاڑیاں کسی بڑی چٹان سے کاٹ کر بنایا کرتے تھے اور وہ لوگ وادی سون کے لوگوں کے مقابلے میں اپنے وسائل پر زیادہ قدرت رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی گنگا جوکہ سطح ارض کا جدید ترین حصہ ہے، وہ اُن دنوں گہرے سمندر کے نیچے تھا۔
انڈس ویلی کی وادی سون سطح سمندر سے اونچائی پر ہے اور یہاں برفانی دور آیا تھا۔ چونکہ سندھو وادی کا جنوبی زیریں حصہ گرم ہے اس لیے یہاں برفانی دور نہیں آیا تھا اور یہاں ارتقا پانے والے انسان کی زندگی کا ایک الگ منظرنامہ ہے۔ کچھ بھی تھا وہاں اگر برف کی ٹھنڈ اور برف ایک مسئلہ تھی تو یہاں یقیناً اور مشکلات ہوتی ہوں گی کیونکہ زندگی سے جھوجھنا کبھی آسان نہیں رہا۔ اس لیے یہاں دانشمند انسان زندہ رہا اور اس کی صناعی اور اس کی صناعی کے آلات بعد کے ادوار تک غیر مرئی طور پر ارتقا پذیر رہے۔ اس نے پتھر کے ٹکڑوں کو سوارنا، چھوٹے اور نازک سنگی تیروں کی نوکیں اور دوسرے اوزار بنانا سیکھ لیا۔ یہ اوزار شمال مغربی سرحد سے لےکر انتہائی جنوب تک پائے گئے ہیں۔
قدیم پتھر کے دور کا انسان شکار اور غذا فراہم کرنے والا تھا، چھوٹے چھوٹے جتھوں میں رہتا تھا اور خانہ بدوش تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے آگ جلانا، موسم سے اپنے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے کھال، چھال یا پتیوں کا استعمال کرنا اور جنگلی کُتوں کو پالنا سیکھا جوکہ ان کی رہائش (گھاس پھوس کی جھونپڑی، درخت کی شاخوں سے بنائی ہوئی تحفظی گول دیوار، باڑ یا غار) کے آگے جلتی آگ کے آگے اپنے مالکوں کی حفاظت کے لیے گھوما کرتے تھے۔ دنیا کے دوسرے علاقوں اور دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح سندھو گھاٹی کے لوگ بھی لاکھوں برس تک اس طرح زندگی بسر کرتے رہے۔
کچھ زمانے گزرنے کے بعد انسان کی زندگی میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یقینی طور پر 10 ہزار سال قبل مسیح سے پہلے نہیں اور شاید 6 ہزار قبل مسیح کے قریب وی گورڈن چائلڈ کے مطابق، ارتقا پانے والے انسان نے اپنے ماحول کی طرف ایک جارحانہ رویہ اختیار کرنا شروع کیا۔ اس نے غلہ اُگانا سیکھ لیا، اس نے گھریلو جانوروں کو پالنا شروع کیا، برتن بنائے اور کپڑے بُننے لگا، معدنیات کی دریافت اور استعمال سے قبل اس نے پتھروں کے ایسے چمکدار اوزار بنانا سیکھ لیے جو کہ پتھروں کے عہد سے کہیں زیادہ شاندار، خوبصورت اور زبردست تھے۔ ایسے اوزار ہمیں زیادہ تر سندھو گھاٹی کے شمال سے لےکر جنوب تک ملتے ہیں جہاں حجری تمدن کئی زمانوں تک قائم رہا۔
اگر ہم تحقیقات اور کھنڈرات سے اندازہ لگائیں تو مشرق وسطیٰ میں ترقی یافتہ زراعت اور مستقل گاؤں کا آغاز 5 ہزار سال قبل مسیح میں ہوا۔ وادی سندھ میں مستقل تمدن کے جو ابتدائی آثار ہمیں ملے ہیں وہ بلوچستان اور نشیبی سندھ میں چھوٹے چھوٹے زراعتی گاؤں کے ہیں جن کی تاریخ کا تعین 4 ہزار قبل مسیح کے اختتام میں کیا جا سکتا ہے۔
قدیم کلاسیکی مصنفین ہمیں بتاتے ہیں کہ 326 قبل مسیح میں سکندر نے دریائے سندھ کو عبور کیا تو سندھو گھاٹی کی آب و ہوا کم و بیش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ ہوسکتا ہے کہ موجودہ آب و ہوا کے مقابلے میں نم زیادہ رہی ہو، دریا کی وادیاں زرخیز اور جنگلات سے بھری تھیں اگرچہ دریائے سندھ کا مغربی ساحلی علاقہ جس کو اب مکران کہا جاتا ہے اور بلوچستان کا بیشتر حصہ پہلے سے ہی خشک اور غیر آباد تھا لیکن 3 ہزار قبل مسیح میں یہاں کی آب و ہوا کافی مختلف تھی۔ سندھ کا پورا علاقہ جنگلات سے بھرا ہوا تھا اور بلوچستان میں جوکہ اب بے آب و گیاہ ریگ زار ہے بہت سے دریا تھے۔ یہ علاقہ بہت سے زراعت پیشہ دیہاتیوں کی مدد کرتا تھا جو بلوچستان کی وادیوں اور اُس وقت کے مکران کے زرخیز میدانی اور نشیبی سندھ کے علاقوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔
اب چونکہ ہم نے ڈاکٹر خان اور پائلو بیگی سے ان کی تحقیق پر اور پاکستان کے بہت سارے انتہائی قدیم مقامات پر انہوں نے جو سائنسی بنیادوں پر انتہائی شاندار تحقیقی کام کیا ہے، اُن سے ہمارے اس سمندری کنارے اور اُن کی قدامت کے متعلق ایک تفصیلی گفتگو کرنی ہے تو ہم جلد ہی ملتے ہیں اگلے پڑاؤ میں منگھو پیر کی اسی پہاڑی پر۔ ہم نے شاید یہ بہت اچھا کام کیا ہے کہ ملنے کے لیے ہم نے اس پہاڑی کو چُنا ہے کیونکہ ہم ملتے یہاں ہیں مگر ہمارے پڑاؤ تاریخ کی گزرگاہوں پر چلتے ہیں۔ یہ یقیناً انتہائی قدیم اور خوبصورت جگہ ہے اور ساتھ ہی پُراسرار بھی جبکہ اس کی پُراسراریت کا بھید بھی کسی نہ کسی آنے والی قسط میں ضرور کُھلے گا۔ تو جلد ہی ملتے ہیں اسی جگہ پر اگلی قسط میں۔
حوالہ جات
- The Mesolithic Settlement of Sindh.(Report) Paolo Biagi.
- The Palaeolithic Settlement of Sindh.(Report) Paolo Biagi.
- The Wonder that was India. Arthur Llewellyn Basham. 1954. Culcutta.
- وادی لیاری ۔ مدیر: حمید ناظر۔ 1992۔کراچی
- ’تاریخ پاکستان‘ (قدیم دور)۔ 1989۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔