• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
وزارت قانون اس بات پر قائم رہی کہ انتخابات کی تاریخ صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے—فائل/ فوٹو: ڈان

الیکشن کمیشن یا صدر! انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار کس کے پاس ہے؟

الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات میں ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر آئینی ماہرین نے مختلف آرا کا اظہار کیا۔
شائع September 12, 2023 اپ ڈیٹ September 13, 2023

عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے حوالے سے آئینی اور قانونی ماہرین اور مبصرین کے ذہنوں میں اس وقت ایک اہم سوال ہے کیونکہ یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ صدر مملکت عارف علوی یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے، اس حوالے سے قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟

خیال رہے کہ 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرلی تھی لیکن صدر مملکت کے خط پر جواب میں کہا تھا کہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔

اصولی طور پر اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد عام انتخابات 90 دنوں کے اندر ہونے چاہئیں، تاہم، 2023 کی مردم شماری کے نتائج منظور کرنے کے سابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت کے فیصلے نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، اس فیصلے کی روشنی میں ای سی پی کی جانب سے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا گیا، جس سے رواں سال انتخابات کا امکان بظاہر معدوم ہوگیا ہے۔

اس کے بعد صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کے لیے دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے مطابق قومی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد 90 دن کی مقررہ مدت میں لازمی ہونا چاہیے۔

صدر عارف علوی کی دعوت کو الیکشن کمیشن نے ایک مختصر خط کے ذریعے مسترد کر دیا اور چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے مطابق صدر سے مشاورت لازمی نہیں ہوگی۔

چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 اور 58 میں کی گئیں ترامیم کا حوالہ دیا تھا، جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر مملکت کو نظرانداز کرنے اور انتخابات کی تاریخوں کا یک طرفہ اعلان کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دباؤ پر صدر عارف علوی نے نگران وزیر قانون احمد عرفان سے دو بار ملاقات کی تاکہ نگراں سیٹ اپ کو انتخابی عمل تیز کرنے پر راضی کیا جا سکے۔

تاہم وزارت قانون اس بات پر ڈٹی رہی کہ انتخابات کی تاریخ صرف الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور اس حوالے سے صدر کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

اس پیش رفت کے بعد یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں ترامیم آئین پر فوقیت رکھتی ہیں؟

اس سوال کی روشنی میں ڈان ڈاٹ کام نے ممکنہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے والے صدر کی قانونی حیثیت کے بارے میں ماہرین سے رابطہ کیا جنہوں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’آئین بالاتر ہے‘

سیاسی مبصر اور قانونی ماہر عبدالمعیز جعفری کہتے ہیں کہ صدر کو آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

قانونی ماہر عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ آئین ایک ایسی اتھارٹی ہے جو انتخابی تاریخوں کا اعلان کرنے کے ان کے اختیارات کے حوالے سے کسی بھی دعوے کو ترجیح دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار، کسی بھی صورت میں، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کے آئینی حکم سے مشروط ہے، جس پر صدر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عبدالمعیز جعفری نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے صدر کے اعلان کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ مسئلہ براہ راست سپریم کورٹ پہنچ جانا چاہیے جہاں کسی بھی جج کو انتخابات میں 90 دن کی مدت میں تاخیر کے حق میں آئین کی تشریح کرنا بہت مشکل پیش آئے گی۔

’الیکشن کمیشن اپنا کام کرے‘

بیرسٹر ردا حسین نے کہا کہ عام قانون سازی کے ذریعے آئینی طاقت کو چھینا نہیں جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر ترمیم شدہ دفعہ 57 کا مطلب ہے کہ یہ ’آئین کے تابع‘ ہے، یہاں تک کہ دوسری صورت میں، عام قانون سازی آئین کے ماتحت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا صدر کا اختیار عام قانون سازی کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

بیرسٹر ردا حسین نے کہا کہ موجودہ صورت میں صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی ہے اور جب صدر قومی اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو صدر ہی آئین کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کا تعین کریں گے۔

الیکشن کمیشن کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے بیرسٹر ردا حسین نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کا بنیادی فرض انتخابات کا ایمان دارانہ، منصفانہ، شفاف اور قانون کے مطابق انعقاد کروانا ہے اور ای سی پی کو اپنا کام کرنا چاہیے۔

’چیک اینڈ بیلنس ضروری‘

وکیل ایمن ظفر کا کہنا ہے کہ 2017 کے ایکٹ میں حالیہ ترمیم نے صدارتی کردار کو مؤثر طریقے سے محض رسمی طور پر برقرار رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل نے سابقہ مشاورتی عمل کو تبدیل کر دیا ہے، جس سے آئین کے بنیادی اصولوں کی تعمیل کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

وکیل ایمن ظفر نے کہا کہ اس نئے عمل کی پیش گوئی کے بارے میں ایک حد تک غیر یقینی صورت حال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قابل فہم ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے اور اس کے بعد اسے حسب ضرورت ایڈجسٹ کر سکتا ہے، جس سے اس نئے اختیار میں موجود لچک اور صوابدید پر سوالات جنم لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لہذا یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کے اجرا کی روشنی میں کیے گئے کسی بھی اقدام کو ’یک طرفہ صدارتی کارروائی‘ قرار نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ ایک قانونی اور آئینی عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا مقصد جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھنا ہے۔

ایمن ظفر کا ماننا ہے کہ آئین میں قانونی دفعات پاکستان کے سیاسی فریم ورک کے اندر ’چیک اینڈ بیلنس‘ کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔