سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران توہین رسالت قانون پر نظرثانی کا معاملہ زیر بحث
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر سیمی ایزدی نے توہین رسالت کے قانون پر نظرثانی کرنے کی تجویز پیش کی اور جواب طلب کیا کہ ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات اتنی زیادہ تعداد میں کیوں ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سینیٹر نے ان خیالات کا اظہار آج سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران کیا۔
اجلاس کی کارروائی کے آغاز پر قائمہ کمیٹی نے انسانی حقوق کے وزیر اور وزیر مملکت برائے انسانی حقوق کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی نے جڑانوالہ واقعے پر بھی بحث کی، اس سانحے میں پرتشدد ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں درجنوں گھروں اور کئی گرجا گھروں کو تباہ کر دیا تھا۔
سیکریٹری انسانی حقوق اللہ ڈنو خواجہ نے جڑانوالہ واقعے پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی، انہوں نے کہا کہ دو مسیحی نوجوانوں پر قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پر تشدد ہجوم کی جانب سے 60 گھروں کو نقصان پہنچایا گیا، 92 خاندانوں کو زر تلافی دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس طرح کے واقعات پر وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے، نیشنل کوآرڈیشن کمیٹی قائم کی جائے، پولیس میں بھی بہتری کی ضرورت ہے۔
دوران اجلاس جڑانوالا جیسے واقعات سے بچنے کے لیے وزارت انسانی حقوق اور قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی۔
قائمہ کمیٹی نے کہا کہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل کی ہم بھی سفارش کرتے ہیں، تحریک انصاف کی سینیٹر سیمی ایزدی نے توہین رسالت قانون کا دوبارہ جائزہ لینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے، پہلے اس طرح کے واقعات زیادہ نہیں ہوتے تھے۔
سیمی ایزدی نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا؟ بہت سے لوگ اس پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، قانون نہیں ہوگا تو پھر کوئی روک تھام نہیں ہوگی، ہر واقعے کو روکنے کے لیے قانون ہونا چاہیے، راستہ بند نہیں ہونا چاہیے، سیمی ایزدی نے کہا راستہ بند نہیں کریں گے، اس قانون کا جائزہ لیں گے۔
اس کے علاوہ ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے سیمی ایزدی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات اتنی تعداد کے ساتھ ہونے کی کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ جنت میں جائیں گے، ہم صرف توہین رسالت کے قانون پر نظرثانی کریں گے، ہمیں اسے تبدیل نہیں کرنا ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اس قانون کو کیسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سینیٹر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ لوگ اس معاملے پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے کافی غور و خوض کے بعد کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں اس معاملے پر فیصلہ نہیں ہو سکا، دیکھتے ہیں آئندہ اجلاس میں کیا ہوتا ہے۔
قائمہ کمیٹی نے وزیر انسانی حقوق اور وزیر مملکت برائے انسانی حقوق کی اجلاس میں عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کیا، کمیٹی نے کہا کہ ایک ہی وزارت کے دو وزرا ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی وزیر کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہے، وزیر کی عدم حاضری پر کیا کرنا چاہیے۔
کمیٹی کا چیئرمین پی ٹی آئی، پارٹی کی گرفتار خواتین سے ملاقات کا فیصلہ
اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پارٹی کی گرفتار خواتین سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا، فلک ناز چترالی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور گرفتار خواتین سے ملاقات کرنی چاہیے، خواتین بنا کسی کیس کے کئی ماہ سے گرفتار ہیں، ان خواتین سے جیل میں جاکر ملاقات کرنی چاہیے۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم جیل جاکر ملاقات کرتے ہیں، اس معاملے پر چیئرمین سینیٹ سے بھی بات کرتا ہوں۔
فلک ناز چترالی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری ہوئی اور 35 خواتین جیلوں میں ہیں، کمیٹی نے عمران خان اور خواتین کی گرفتاری کے معاملے پر بھی اہم اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا، ولید اقبال نے کہا کہ رواں ماہ ہی انسانی حقوق کمیٹی کا اہم اجلاس بلائیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی اور خواتین کی گرفتاری کا معاملہ اجلاس کا ایجنڈا ہوگا۔