پی ٹی آئی کا کراچی سے عثمان ڈار کو ’اغوا‘ کیے جانے کا الزام، پولیس کی تردید
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مرکزی رہنما عثمان ڈار کو ’نامعلوم افراد‘ نے کراچی سے ’اغوا‘ کر لیا اور نامعلوم مقام پر لے گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے بتایا کہ عثمان ڈار کو ہفتے کو 4 بج کر 30 منٹ پر ملیر کینٹ سے ’اٹھایا‘ گیا۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عمر ایوب خان کا کہنا تھا کہ پولیس دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ ان کی حراست میں نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی رہنماؤں کو اغوا‘ کرنا ’اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر‘ بن گیا ہے، اور انہیں اسی وقت چھوڑا جاتا ہے جب وہ جماعت سے علیحدگی کا بیان نہ جاری کردیں۔
دریں اثنا کراچی کے ضلع ملیر کی پولیس نے مبینہ گرفتاری میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر طارق الہٰی مستوئی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پولیس نے پی ٹی آئی رہنما کو گرفتار نہیں کیا ہے۔
دوسری جانب، پی ٹی آئی کے ترجمان نے بتایا کہ لاقانونیت کی تاریخ رقم کرنے والی ریاستی مشینری کی جانب سے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتا کرنے کا نیا سلسلہ سامنے آیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بنیادی حقوق و قانون کے تحفظ کے حوالے سے ان عناصر کو اپنے وجود کا احساس دلوائے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں کو اغوا اور زبردستی غائب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، مزید کہا کہ عثمان ڈار سے قبل سینیٹر عون عباس اور صداقت علی عباسی کو اغوا کیا گیا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’اغوا‘ کیے جانے والے رہنماؤں کو ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنا کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے راہیں جدا کریں۔
دوسری جانب عثمان ڈار کی والدہ نے ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا ہے اور ’اغوا کار‘ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتا رہے۔
انہوں نے اپنے بیٹے کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاع کر سکے، ان کا کہنا تھا کہ میری اپیل کو سنا جانا چاہیے۔
پی ٹی آئی کراچی کے صدر نے نگران صوبائی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ پیپلز پارٹی کے فسطائیت کے رجحان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما فرخ حبیب نے مطالبہ کیا کہ مبینہ طور پر زیر حراست رہنما کو فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے اور اگر ان کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
اگست میں عثمان ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں ان کے گھر، فیکٹری اورکاروبار کو سیل کر دیا گیا ہے اور ان کے اہل خانہ بشمول خواتین پھنسے ہوئے ہیں۔