چینی کی قیمتوں میں اضافے نے ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 26 فیصد سے اوپر پہنچا دی
قلیل مدتی مہنگائی7 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران سالانہ بنیادوں پر بڑھ کر 26.32 فیصد ہو گئی، جس کی بنیادی وجہ ملک بھر میں چینی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چینی کی سب سے بلند خوردہ قیمت کوئٹہ اور پشاور میں دیکھی گئی جہاں یہ 200 روپے فی کلو میں فروخت کی جارہی ہے، اس کے بعد کراچی اور راولپنڈی میں 195 روپے فی کلو، اسلام آباد میں 190 روپے فی کلو اور فیصل آباد، سیالکوٹ، ملتان، گوجرانوالہ، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں 180 روپے فی کلو ریکارڈ کی گئی۔
ملکی سطح پر چینی کی اوسط قیمت زیادہ سے زیادہ 200 روپے فی کلو رہی، یہ بنیادی طور پر 2 وجوہات کے سبب مہنگی ہوئی، ایک یہ کہ اسمگلنگ کے ذریعے بہت سی چینی ملک سے باہر لے جائی گئی، دوسرا یہ کہ پی ڈی ایم حکومت نے رواں برس فروری سے قانونی طور پر چینی کی برآمدات کی اجازت دے دی تھی۔
ذرائع کے مطابق تقریباً 8 لاکھ ٹن چینی مغربی سرحد سے اسمگل کی گئی ہے، اس کے ساتھ ہی پی ڈی ایم حکومت نے فروری سے اب تک 2 لاکھ 50 ہزار ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی ہے، اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اگست کے شروع میں چینی کی برآمد پر پابندی عائد کر دی تھی۔
حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) سے پیمائش کردہ قلیل مدت مہنگائی کی شرح بلند رہی، تاہم اس میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 0.96 فیصد اضافہ ہوا جوکہ پچھلے 7 ہفتوں سے مہنگائی کے بڑھتے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
توانائی کے شعبے میں ڈیزل کی قیمت میں 6.28 فیصد، ایل پی جی کی قیمت میں 5.19 فیصد اور پیٹرول کی قیمت میں 5.12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ 2 ہفتوں میں حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی غیرمعمولی اضافہ کر چکی ہے جس کے حقیقی اثرات اگلے ہفتے کے اعداد و شمار میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
ایس پی آئی میں 51 اشیا کی قیمتوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں سے 32 اشیا کی قیمتیں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں بڑھ گئیں، 5 کی قیمتوں میں کمی اور 14 کی قیمتیں برقرار رہیں۔
زیر جائزہ ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں ایک سال پہلے کے اسی ہفتے کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ان میں گندم کا آٹا (117.71 فیصد)، گیس پہلی سہ ماہی (108.38 فیصد)، چینی (107.36 فیصد)، سگریٹ (100.16 فیصد)، چاول باسمتی ٹوٹا (90.66 فیصد)، چائے لپٹن (88.41 فیصد)، پسی مرچ (86.05 فیصد)، چاول ایری-6/9 (84.18 فیصد)، گڑ (72.83 فیصد)، مردانہ چپل (58.05 فیصد)، مردانہ سینڈل ( 53.37فیصد)، نمک (52.07 فیصد)، خشک دودھ (42.45 فیصد) اور ڈبل روٹی (42.33 فیصد) شامل ہیں۔
ہفتہ وار بنیادوں پر سب سے زیادہ اضافہ ٹماٹر (17 فیصد)، دال مسور (10.87 فیصد)، چینی (6.73 فیصد)، لہسن (4.66 فیصد)، گڑ (3.62 فیصد)، دال مونگ (3.55 فیصد)، پیاز (3.43 فیصد) اور دال چنا (3.25 فیصد) کی قیمتوں میں ہوا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس مئی میں ایس پی آئی 4 مئی کو 48.35 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد 3 ہفتوں تک 45 فیصد سے اوپر رہا تھا۔
روپے کی قدر میں کمی، پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، سیلز ٹیکس اور بجلی کے بھاری بلوں نے مہنگائی میں اضافے کے اس رجحان میں کلیدی کردار ادا کیا، آئی ایم ایف کی تازہ ترین پیش گوئی کے مطابق رواں مالی سال کے لیے اوسط کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے جوکہ گزشتہ برس 29.6 فیصد رہا۔
اسی طرح، ہفتہ وار بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی، ان میں چکن (3.20 فیصد)، کوکنگ آئل کا 5-لیٹر پیک (1.03 فیصد)، ڈھائی کلو گھی (0.47 فیصد)، لپٹن چائے (0.43 فیصد)، لپٹن چائے (0.43 فیصد) اور ایک کلو گھی (0.14 فیصد) شامل ہیں۔