حراموش یقیناً ناقابل فراموش۔۔۔
ہمارے دور کے سیاحتی مصنف مستنصر تارڑ کو دو خوبصورت مقامات منظر عام پر لانے کا کریڈٹ ہمیشہ دیا جاتا رہے گا۔ آپ نے رتی گلی اور حراموش جیسے خوبصورت مقامات کو دنیا کے سامنے لاکر انہیں ایک پہچان دی۔ ’حراموش ناقابل فراموش‘ جیسے جملے کے حقوق نہ صرف محترم تارڑ صاحب کے لیے محفوظ ہیں بلکہ جب بھی حراموش کی خوبصورتی کا ذکر ہوتا رہے گا، ان کا نام بھی ساتھ لیا جائے گا۔
اپنے ایک بیوروکریٹ دوست حاکم خان کی فرمائش پر میں نے دوسری مرتبہ حراموش جانے کا قصد کیا۔ 10 سال بعد حراموش بدل چکا تھا۔ کے ٹو اور نانگا پربت کے بیس کیمپ کے بعد شاید اس وادی میں سب سے زیادہ غیرملکی سیاح آتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل حراموش کا شمالی گلیشیئر پار نہیں کرنا پڑتا تھا لیکن اب مرور زمانہ نے گلیشیئر اور کٹوال وادی کو قدرے تبدیل کردیا ہے۔
اسلام آباد سے فور بائے فور گاڑی پر سوار ہوکر ناران کی طرف سفر شروع ہوچکا تھا۔ ناران شہر میں رات کا کھانا ایک دوست اسد شہزاد کی دعوت پر کھا کر جلد ہی بابو سر کی طرف روانہ ہوگئے۔ رات کے وقت غیر ضروری سفر سے ہمیشہ بچنا چاہیے یہی وجہ ہے کہ جب بھی سواری اپنی ہو تو رات 8 بجے کے بعد ہمیشہ ہوٹل یا کیمپنگ کرکے رات بسر کرتا ہوں مگر حاکم اور ہمارے بیچ سارا مسئلہ ہی وقت کا تھا لہٰذا بیسر کے پاس ہمارے دوست کے ایک ہوٹل میں 5 گھنٹے کی نیند پوری کرکے علی الصبح اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہوئے۔
لولوسر جھیل، بابوسر پاس، چلاس، بونر داس، گونر فارم، گنی اور دیگر چھوٹی بڑی منزلوں کو عبور کرتے ہوئے ہم دوپہر 3 بجے اپنی منزل مقصود سسی گاؤں جا پہنچے۔ اپنے دوست جگنو کے ہوٹل سے کھانا کھانے کے بعد اپنی ہی گاڑی پر داسو گاؤں تک جانے کا قصد کیا۔ اس خطرناک روڈ پر صرف ماہر ڈرائیور ہی گاڑی چلاسکتے ہیں لہٰذا مقامی دوست ہی کی مدد سے کچے پہاڑوں کے بیچوں بیچ اس خطرناک روڈ پر سفر کرنا اچھا فیصلہ ثابت ہوا۔
عموماً جس ٹریک پر ایک مرتبہ جاچکے ہوں وہاں پر گائیڈ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن ایک طویل عرصہ گزرنے اور گزشتہ برس سیلاب کے باعث اس علاقے کے خدوخال میں کافی فرق پڑا ہے لہٰذا داسو گاؤں سے جیپ پر کوالی تک پہنچنے کے بعد ہم نے اپنے گائیڈ کے ساتھ شام 5 بجے سفر شروع کیا۔ کول (صاف پانی کا نالہ جو مقامی افراد اپنی فصلوں کے لیے تیار کرتے ہیں) کے ساتھ ساتھ ٹریکنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔ جہاں دھوپ کی تمازت سے جسم پر پسینہ بہہ رہا تھا وہیں کبھی کبھی ہوا کا جھونکا ہمارے مصمم ارادوں کو مزید تقویت بخشتا جارہا تھا۔
قراقرم کے پہاڑوں کی اپنی ہی ہیبت ہے۔ انسان کو اس کی اوقات اور خالق کی صناعی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ یہ میخ دار قراقرمی پہرے دار ان خوبصورت وادیوں کے لیے جھومر سے کم نہیں۔ ہماری ٹیم چونکہ اپنے خیمے اور دیگر سازوسامان کو خود کاندھے پر لے کر پیش قدمی کرنے کی عادی ہے لہٰذا ہمارے ساتھ پہلی مرتبہ سفر کرنے والے ساتھی کی تھکاوٹ کے پیش نظر اسکرے گاؤں کے نچلے حصے میں رکنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارے دوست نے اس ناپسندیدہ فیصلے پر اپنی مذمت کا بھرپور اظہار کردیا۔ سفر میں اگر ایسے ہمت والے دوست مل جائیں تو سفر مزید بہتر ہوجاتا ہے۔ ان کی اس ہمت کی بدولت 2 گھنٹے کی مسلسل چڑھائی کے بعد جلد ہی ہم اسکرے میں اپنی مقرر کردہ منزل پر پہنچ چکے تھے۔
سورج ڈھلنے سے قبل خیمہ لگانا ہمیشہ بہتر رہتا ہے۔ موسمی ندی سے دور اور کچے پہاڑ یا پتھریلے علاقے میں خیمہ زن ہوتے وقت بہت سے عوامل کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وقت کی قلت کے باعث اسکرے میں ایک خالی مکان کی چھت پر نوآموز ٹریکر دوست نے خیمہ زن ہونے کا قصد کرڈالا لیکن خیمے میں میٹرس کے نیچے موجود ایک پتھر نے رات گزارنے کے ساتھ ساتھ نیند میں خلل پیدا کیا۔ اس پتھر نے صبح بیدار ہونے تک جیسے ہماری کمر میں گھونسوں کی بارش کردی۔
بہرکیف رات کا آسمان اپنے تاروں کے ساتھ جلوہ گر ہوچکا تھا ایک خاص خاموشی و سکوت کا سماں تھا مگر ساتھ ہی ساتھ رات کے سکوت میں حشرات کا نقارہ بج چکا تھا۔ ایک طرف گوپرو سے نائٹ لیپس جبکہ دوسری طرف چولہے پر چائے اور نوڈلز تیار ہورہے تھے کہ اچانک آسمان پر قطار در قطار روشنی کے چھوٹے چھوٹے گولے نمودار ہوئے اور مشرقی سمت سے مغربی سمت جاتے دکھائی دیے۔ غیر مرعی مخلوق کے قائل تو نہیں ہیں لیکن ایک مرتبہ جھٹکا سا لگا کہ یہ سب کیا ماجرا ہے؟ جلد ہی عقدکشائی ہوئی کہ Starlink کی سیٹلایئٹس ہیں۔ نوڈلز اور چائے پینے کے بعد گوپرو کو کھلی فضا کے حوالے کرکے سونے کا ارادے سے خیمے میں جادھمکے۔
علی الصبح وادی کا نظارہ انتہائی شاندار تھا۔ لیلٰی پیک پر پڑتی سورج کی کرنیں، وادی میں دور دور تک ہر سو پھیلا ہوا سبزہ اور تازہ ہوا کے جھونکے انہی لوگوں کے نصیب میں ہوتے ہیں جو کچھ جوکھم اٹھا کر ان پیاری وادیوں میں ٹریکنگ کا قصد کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے چولہے پر چائے اور ناشتہ تیار کرکے 7 بجے ہی اپنی ٹریکنگ کا آغاز کردیا۔ مسلسل چڑھائی، چیڑ کے درختوں کے گھنے جنگل اور صاف ستھرے چشموں کے ساتھ ساتھ ہم چلتے جارہے تھے جبکہ دوسری طرف لیلٰی پیک بھی اپنا قرب بخشتی جارہی تھی۔ قريباً ایک گھنٹے اور 20 منٹ چلنے کے بعد ہمارے سامنے لیلٰی پیک سر تان کر کھڑی تھی اور گلیشیئر زیادہ واضح ہوچکا تھا۔
پرانا راستہ گلیشیئر نے ختم کردیا تھا۔ مُرور زمانہ نے ان وادیوں پر اپنا بہت ہی برا اثر ڈالا ہے ہمیں جلد ہی ان علاقوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے بصورت دیگر یہ علاقے ہماری اگلی نسل تک اپنا حسن کھو دیں گے۔ گدوئی پل عبور کرکے 20 منٹ مزيد ٹریکنگ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ حراموش چوٹی کا دیدار نصیب ہوا۔ کیا ہی شاندار نظارہ ہوتا ہے جب آپ ان چوٹیوں کی گود میں ہوتے ہیں اور خالق کی صناعی کی تعریف زبان سے خود بخود جاری ہوجاتی ہے۔
ہم جلد ہی گلیشیئرز کو عبور کرکے بری والا گاؤں پہنچ چکے تھے۔ یہاں درختوں پر ساگ کو لٹکا کر سکھایا جاتا ہے۔ اس نئے انداز سے کچھ دیر کے لیے محظوظ ہوئے۔ ہر سو سبزہ ہی سبزہ تھا، تیز دھوپ میں حراموش کا خوبصورت پہاڑ اور سرسبز میدان ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں جو ناقابل بیان ہے۔
بلتستان یا دیگر وادیوں میں تو دیسی کھانے کی جستجو میں رہنا ہمیشہ سے میری عادت ہے، بکرے کی کھال میں تیار کی گئی لسی، ساگ اور روٹی سے چچا گائیڈ نے مجاھرئے گاؤں میں تواضع کروائی۔ بکری کے دودھ سے بنی یہ لسی جیسے جسم سے تھکاوٹ کھینچ کر باہر نکال مارتی ہے۔ ہم لسی پی کر تازہ دم ہوئے اور اپنی منزل کی طرف پھر سے خراماں خراماں چل دیے۔
کٹوال جھیل کی پہلی جھلک دکھائی دینے سے پہلے ایک بہت بڑا میدان عبور کرنا پڑتا ہے۔ بلیودھ نامی یہ بڑا میدان کرکٹ کا ایک بہت اسٹیڈیم لگتا ہے جسے قدرت نے حراموش کے قدموں میں جڑ دیا ہے۔ میدان میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ٹڈی دل کی ہم آہنگ آوازیں کانوں کو بہت ہی بھلی محسوس ہورہی تھیں۔ ایک گھنٹے کے بعد ہم کٹوال جھیل کی عقبی جانب پہنچ چکے تھے۔ جھیل کا پہلا نظارہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ حراموش پہنچنے والے ٹریکرز ان مناظر کو کبھی نہیں بھولتے۔ یہ جھیل ناقابل بیان منظر پیش کرتی ہے۔
رَک سیک اتار کر اس منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک جھیل میں نہانے کا خیال پیدا ہوا مگر اس سے پہلے ایک اہم کام ابھی باقی تھا۔ کٹوال جھیل پر موسم گرما میں بھی اگر کوئی بڑا گلیشیئر پھٹ جائے تو کچھ نہ کچھ نقصان کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے اس لیے برج پتر کے درختوں کی اوٹ میں اپنا خیمہ لگانا مناسب سمجھا۔ اس کے بعد جلد ہی جھیل کے کنارے جا پہنچے اور جھیل میں جی بھر کر نہائے۔ دھوپ تیز تھی لہٰذا نہانے کا خطرہ مول لینے میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوا۔
دوپہر کا کھانا وادی میں موجود واحد ہوٹل پر کھایا۔ یہ ہوٹل جگنو بھائی کی ملکیت ہے۔ دوبارہ آدھے گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہوٹل سے کٹوال جھیل پر پہنچے۔ سہ پہر کے بعد غروب ہوتا ہوا سورج اور حراموش اور کٹوال جھیل کا مرکب قدرت کے حسین ترین مناظر میں سے ایک ہے۔ کبھی کبھی حراموش کی چوٹی اٹھکیلیاں کرتے ہوئے اپنے اوپر پڑے گلیشیئرز کو نیچے دھکیل دیتی ہے جس سے ایک خوفناک آواز پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جھیل کے پانی پر گلیشیئرز کی ہوا کی بدولت پیدا ہوتا ارتعاش اور برج پتر کا ہلنا ایک غضب کا قدرتی تال میل ہوتا ہے جسے قلم بند کرنا ممکن ہی نہیں۔
ایک برطانوی دوست گزشتہ دو دن سے جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی پاکستان کی خوبصورت وادیوں کے گن گاتے دکھائی دیا جبکہ ایک جرمن خاتون ٹریکر مقامی بکروالوں سے دیسی لسی لےکر اپنے دوستوں کے ساتھ نوش کرتی نظر آئیں۔ شام کے ساتھ ہی علاقے میں ٹھنڈ ہوجاتی ہے اس لیے اردگرد سے لکڑیاں جمع کرکے آگ لگائی گئی اور اس کے گرد ہم اور ہمارے گائیڈ دوست بیٹھ کر گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ ایک دوست کو تو کچھ ٹھنڈ لگ گئی اور وہ خیمہ میں سونے کے لیے جلد ہی تشریف لے گئے جبکہ ہم کٹوال جھیل، حراموش کی چوٹیوں، کھلے آسمان اور اس پر موجود ہلال کی معیت میں قدرت کے ان نظاروں کو تکتے اور باتیں کرتے رہے۔ سونے سے قبل دیسی دودھ کی چائے پی اور پھر رات اپنے اپنے خیموں میں جا لیٹے۔
صبح 3 بج کر 40 منٹ پر حراموش پر گلیشیئرز پھٹ پڑے اور ہم شدید خوفناک آواز کی گرج سے جاگ اٹھے۔ حراموش کی چوٹی پر گلیشیئرز آپس میں رگڑ کھا کر ایک چنگاری سلگاتے ہوئے نیچے کی جانب بڑھ رہے تھے۔ انگریز دوست کے گائیڈ اپنے خیمہ سے دور بھاگتے دکھائی دیے جبکہ دوسری طرف ہم نے برف کو دور سے اپنے خیموں کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا لیکن جلد ہی بھانپ لیا کہ برف کا یہ طوفان ہمارے لیے کچھ خطرے کا باعث نہیں۔ خیموں پر برف کی ہلکی پرت آکر گری تو سہی لیکن کسی بھی قسم کے نقصان کا باعث نہیں بنی یوں ہم جلد ہی دوباره اپنے خیمہ میں واپس جالیٹے۔
علی الصبح ناشتے کے بغیر واپسی کا قصد کیا۔ صاف آسمان اور دور سے بلچار ڈوبانی اور حراموش پر گرتی سورج کی کرنوں نے دل موہ لیا۔ اس ماحول کی خوبصورتی کا معیار اتنا بلند تھا کہ ہمیں اپنے آپ کی خبر ہی نہ تھی یہاں تک کہ چچا گائیڈ نے ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے ہمارا رَک سیک ہمیں تھما دیا۔ 4 گھنٹے میں واپس داسو پہنچ کر اس بہترین سفر کا اختتام ہوچکا تھا۔
قدرت کے یہ خوبصورت مناظر شہروں میں بسنے والوں کی روح اور جسم دونوں کے لیے تھراپی کا کام کرتے ہیں۔ دل و دماغ ان وادیوں میں آکر جیسے تروتازہ ہوجاتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں اپنے مسکنوں کی طرف واپس جانا پڑتا ہے لیکن یقین کیجیے یہ حالات قلم بند کرتے ہوئے بھی میرا دل و دماغ ان مناظر سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
الغرض کٹوال جھیل اور 7 ہزار 400 میٹر کے طویل القامت پہاڑ کا ایک دوسرے کے سامنے موجود ہونے کا مجموعہ صرف وادی حراموش میں ہی مل سکتا ہے۔ خوبصورت وادیوں، لذیذ پھلوں، گلیشیئرز، چشموں، انتہائی قیمتی پتھروں، مزرع گاہوں، آسمان پر چمکتے ستاروں، رات کو آپس میں حراموش کی چوٹیوں پر ٹکراتے گلیشیئرز اور ان سے نکلنے والی چنگاریوں کو اگر دیکھنا ہو تو وادی حراموش کا قصد کیجیے۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔