ڈی ایچ اے پراپرٹی ٹیکس پر قانونی جنگ جاری، عدالت سے مزید رہائشیوں کو ریلیف مل گیا
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کی جانب سے اس کے رہائشیوں کے لیے پراپرٹی ٹیکس میں حالیہ اضافے سے متعلق قانونی جنگ جاری ہے، سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ روز سی بی سی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو رہائشیوں کے خلاف کوئی بھی زبردستی کارروائی کرنے سے روک دیا جنہوں نے عدالت میں 2 درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے کچھ رہائشیوں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ 23 اگست 2022 کو اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ بورڈز راولپنڈی کے جاری کردہ خط کو مسترد کیا جائے، ان کا مؤقف تھا کہ اس طرح کے خط کے ذریعے غیر قانونی، حد سے زیادہ اور من چاہا ٹیکس لگایا گیا ہے۔
جسٹس محمد جنید غفار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، ایڈووکیٹ زہیم حیدر اور سی بی سی کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر ضمیر حسین عدالت میں پیش ہوئے، وکیل نے آئندہ سماعت پر ڈی ایچ اے اور سی بی سی کی جانب سے معاملے پر تبصرے جمع کروانے کی یقین دہانی کروائی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جی ایم بھٹو نے بینچ کو یقین دہانی کروائی کہ سیکریٹری دفاع، پانچویں کور کمانڈر اور ملٹری اسٹیٹ آفس کراچی سرکل کی جانب سے جواب جمع کروایا جائے گا۔
تاہم کنٹونمنٹ بورڈ کراچی (سی بی کے) کی جانب سے کوئی بھی حاضر نہیں ہوا اور بنچ نے دوبارہ سی بی کے کے ساتھ ساتھ ایڈووکیٹ جنرل کو 20 ستمبر کو ہونے والی آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کردیا۔
ایک درخواست میں درخواست گزاروں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ سعادت یار خان نے درخواست گزاروں کو جائیداد اور دیگر ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے جاری کیے گئے چالان کے حوالے سے عبوری حکم امتناع کی استدعا کی۔
بینچ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ جہاں تک پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کے لیے تحفظات اور پانی کے چارجز کے ساتھ بڑھے ہوئے سالانہ رینٹل ویلیو (اے آر وی) کا تعلق ہے، یہ مطلع کیا جاتا ہے کہ 15 فیصد چھوٹ کے ساتھ ادائیگی کی آخری تاریخ 30 ستمبر 2023 ہے، چونکہ جواب دہندگان نمبر ایک اور نمبر 2 (ڈی ایچ اے اور سی بی سی) کے وکیل کو مناسب تبصروں کے ساتھ عدالت کی مدد کے لیے وقت درکار ہے، اس لیے سماعت 20 ستمبر 2023 تک ملتوی کی جاتی ہے، تاہم سماعت کی اگلی تاریخ تک جواب دہندگان درخواست گزاروں کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی نہیں کریں گے۔
متعلقہ مکینوں نے اپنی درخواستوں میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت ہر قسم کے ٹیکس صرف پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے ہی لگائے جا سکتے ہیں لہٰذا مذکورہ خط سراسر غیرقانونی اور غیرآئینی ہے۔
درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے پارٹ ون کے اندراج نمبر 37 اور 50 کے مطابق کسی صوبے میں واقع جائیدادیں ہمیشہ صوبائی قانون سازی کے تابع ہوتی ہیں یعنی سندھ غیرمنقولہ پراپرٹی ٹیکس اور صوبائی حکومت کو پراپرٹی ٹیکس کی جانچ اور لیوی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ابتدائی طور پر سند ہائی کورٹ کے ایک اور ڈویژن بینچ نے یکم جون کو جواب دہندگان کو اسی طرح کی ایک اور درخواست میں اس کے سابقہ اثر کے لیے پہلے سے طے شدہ اے آر وی پر ٹیکس کی وصولی کے لیے دوبارہ تشخیص کے حوالے سے درخواست گزاروں کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں بینچ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ موجودہ سال 2023 سے 2024 کے ری اسیسمنٹ کے لیے 25 فیصد ری اسیسمنٹ حاصل کی جائے گی، جس کے لیے جواب دہندگان کو یا تو موجودہ ٹیکس سال 23-2022 کے لیے صرف 25 فیصد کا نیا چالان جاری کیا جائے گا یا مذکورہ ری اسیسمنٹ کے 25 فیصد کی متبادل رقم میں درخواست گزار 10 روز کے اندر پے آرڈر یا بینک گارنٹی کے ذریعے حاصل کر لیں۔
یہ ہدایات فائزہ سعید اور دیگر 85 رہائشیوں کی جانب سے اپنے وکیل خواجہ شمس الاسلام کے ذریعے مئی میں دائر کی گئی درخواست پر جاری کی گئی تھیں۔
علاوہ ازیں پراپرٹی ٹیکس کے خلاف ڈیفنس اور کلفٹن کے رہائشیوں کی جانب سے دائر کی گئی متعدد دیگر ایک جیسی درخواستیں ہیں جو سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں اور 8 ستمبر اور 26 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہیں۔