• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

صدر مملکت سے نگران وزیرقانون کی ملاقات، انتخابات پر تبادلہ خیال، آئین کی بالادستی پر زور

شائع September 4, 2023
—فوٹو: پی آئی ڈی
—فوٹو: پی آئی ڈی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نگران وفاقی وزیر قانون اور انصاف احمد عرفان اسلم سے ملاقات کے دوران عام انتخابات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا اور ملک میں آئین کی بالادستی برقرار رکھنے پر زور دیا۔

ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں نگران وفاقی وزیرقانون نے ملاقات کی، ملاقات میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کئی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ صدر مملکت نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان کو سراہا کہ نگران حکومت اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی پاسداری کرے گی۔

ایوان صدر کے مطابق نگران وفاقی وزیر سے ملاقات میں صدر مملکت نے آئین کی بالادستی برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ فیصلے آئین کی روح کے مطابق ہونے چاہئیں۔

صدر مملکت عارف علوی کی نگران وزیرقانون سے ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب صدر مملکت، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور دیگر فریقین کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ طے کرنا کمیشن یا صدر مملکت کا اختیار ہے۔

قبل ازیں الیکشن کمیشن رواں برس انتخابات کا امکان مسترد کرچکے ہیں کیونکہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کے باعث 90 روز کے اندر انتخابات ممکن نہیں ہوں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت انتخابات کے انعقاد کی تاریخ 9 نومبر کو ختم ہوگی۔

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ 2023 کی نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی منظوری کی بنیاد اور الیکشن ایکٹ کی شق 17 (2) کے تحت کیا گیا ہے اور اس کے تحت الیکشن کمیشن ہر مردم شماری کے بعد نتائج شائع ہونے پر نئی حلقہ بندیاں کرے گا۔

دوسری جانب گزشتہ ماہ صدر عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے مشاورت کی دعوت دی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر کو لکھے خط میں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب قومی اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہوتی ہے صدرمملکت کی ذمہ داری ہے کہ وہ 90 روز میں انتخابات کی تاریخ طے کرے۔

دوسری جانب الیکشن ایکٹ 2017 میں ہونے والی حالیہ ترامیم کے تحت الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار مل گیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے ترامیم کا حوالہ دیتے ہوئے صدر مملکت کے خط کا جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کے تعین کے لیے ان کے ساتھ مشاورت ضروری نہیں ہے۔

جس کے بعد صدر مملکت نے وفاقی وزارت قانون سے اس معاملے پر تجویز طلب کی تھی اور وزارت نے صدر کو آگاہ کیا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

تاہم اس معاملے پر مختلف جماعتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا تھا اور عدالت سے انتخابات جلد کروانے کے لیے حکم جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں الیکشن کمیشن کے مؤقف کی تائید کی۔

جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں بات کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا تھا کہ قانون کے مطابق عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی حکم آتا ہے کہ انتخابات 90 روز کے اندر ہونے چاہیے تو نگران حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی۔

نگران وزیراعظم کے 9 مئی سےمتعلق بیان پر پی ٹی آئی کی تشویش

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کا احتجاج ’بغاوت اور خانہ جنگی کی کوشش تھی، جس کا نشانہ آرمی چیف اور ان کی ٹیم تھی‘۔

پی ٹی آئی نے نگران وزیراعظم کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں بیان نہایت حیران کن اور باعثِ تشویش ہے، نگران وزیراعظم بادی النظر میں اب تک آئین اور اپنے مینڈیٹ کو ٹھیک طریقے سے سمجھنے سے قاصر ہیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’انوارالحق کاکڑ کی حکومت پر آئین کی طے شدہ مدت یعنی 90 روز میں صاف، شفاف انتخابات کے انعقاد کی واحد ذمہ داری ہے، نگران وزیراعظم انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ہر موضوع پر لب کشائی کرتے اور بیانات دے رہے ہیں‘۔

پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ملک حکومتی سطح پر ناقص، گمراہ کن اور مجہول بیانیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا، یہ بیاناتے بلاشبہ 9 مئی کے واقعات کے حقائق چھپانے کی ایک کوشش لگتے ہیں جنہیں قوم تسلیم نہیں کر رہی ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’قوم 9 مئی کے واقعات کی تمام پہلوؤں سے غیرجانب دارانہ اور اعلیٰ سطح کی عدالتی تحقیقات کی تاحال منتظر ہے، نگران وزیراعظم کے پاس قابلِ اعتبار شواہد ہیں تو انہیں قوم کے سامنے رکھیں، ریاستی ذمہ داران خصوصاً نگران حکومت کی جانب سے حسّاس قومی معاملات پر بلاتحقیق بیان بازی ملک میں انتشار کے فروغ کا موجب ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024