کیا اردو لفظ ’لوٹا‘ اور انگریزی کا ’روٹا‘ ہم معنیٰ ہیں؟
شعر شاعر مشرق کا ہے اور جس رعایت سے یاد آیا ہے اس کا تعلق اُس عمومی سماجی رویے سے ہے جس میں انسان شکم کا بندہ بن کر رہ گیا اور علم و تحقیق کا مزاج اگر تھا بھی تو اب جاتا رہا ہے۔
ایک دور تھا کہ جسے مؤرخین عہد زریں (golden era) سے تعبیر کرتے ہیں، مسلم حکما بحرِ فلکیات کے شناور تھے۔ اس باب میں ہمارے اسلاف نے جو اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو تاج برطانیہ کی شاہی رسد گاہ گرین وچ (Royal Observatory Greenwich) کا رُخ کریں۔ اس ادارے کے زیر اہتمام جو تحقیقی مجلّہ شائع ہوتا ہے اس کا نام ناٹیکل المناخ (The Nautical Almanac) ہے۔
’ناٹیکل المناخ‘ کا جُز ثانی ’المناخ‘ بزبان حال بتا رہا ہے کہ اس کا تعلق ’عرب‘ سے ہے۔ ’المناخ‘ کے معنی ’اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ، اقامت گاہ، منزل اور پڑاؤ کے ہیں۔ جب کہ اس کے ثانوی معنی میں ’ماحول اور فضا‘ بھی شامل ہیں۔
اس علمی رسالے میں ستاروں کے طلوع و غروب کا سالانہ احوال درج ہوتا ہے، تاکہ بے نشان سمندر میں محو سفر جہاز ران منزل کا تعین آسانی سے کرسکیں۔
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ آج بھی ’المناخ ناٹیکل‘ میں جن ستاروں کے طلوع و غروب کا احوال درج ہوتا ہے ان کی غالب اکثریت کے نام عربوں کی عطا ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ان کا تلفظ انگریزی کے زیرِاثر قدرے بدل چکا ہے، مثلاً Achernar دراصل ’آخرالنہر‘ ہے اور Alphard کو ’الفرد‘ سے نسبت ہے۔ Alphecca حقیقتاً ’الفکہ‘ ہے تو Altair کی اصل ’الطیر‘ ہے۔ یہی حال دیگر بہت سے ستاروں کے ناموں کا ہے۔
مسلمانوں کی علمی فتوحات فقط فلکیات تک محدود نہیں تھیں بلکہ صدیوں قبل ہی انہوں نے فضاؤں کو تسخیر کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ اسپین میں عباس ابن فرناس (887ء-810ء) کی اولین کوششں اس راہ میں نشان منزل ثابت ہوئی تو استنبول میں ہزار فن احمد چلبی (1640ء-1609) نے انسان کے ہواؤں میں اڑنے کے خواب میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔
استنبول کے مغربی حصے میں واقع تاریخی غلاطہ ٹاور سے پرواز بھرنے والے ہزار فن شاخِ زریں (golden horn) عبور کرکے استنبول کے مشرقی گوشے میں اترا، یوں جو اب تک ناممکن تھا وہ ممکن ہوگیا۔ یہ ناصرف پہلی انسانی پرواز تھی بلکہ اسے پہلی بین البرِاعظمی پرواز کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
بہ ہرحال اس شان دار ماضی کے باوجود آج جو صورت حال ہے وہ علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے مختلف نہیں:
یہاں مزید مثالوں سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے کہ کہیں آپ ہمیں مشتاق یوسفی کے اس بیان کا مصداق نہ ٹھہرا دیں:
ہمارے نزدیک یہ ماضی پرستی نہیں بلکہ ماضی تو وہ آئینہ ہے جس میں حال دیکھ کر مستقبل سنوارا جاتا ہے مگر ہمارا مستقبل تو شاید اس شعر کی عملی تفسیر بن کر رہ گیا ہے:
ویسے اوپر اقبال کا جو شعر ذکر ہوا اس میں دو الفاظ ’ثابت اور سیارا‘ لائق توجہ ہیں۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ایک بات سمجھ لیں کہ علامہ اقبالؒ نے ’سیارا‘ ضرورتِ شعری کے تحت باندھا ہے وگرنہ اس لفظ کا درست املا ’سیارہ‘ ہے۔
پہلے ’ثابت‘ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں لفظی، اصطلاحی اور مجازی معنی میں استعمال ہونے والا یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ عربی زبان کے ایک بڑے عالم علامہ راغب اصفہانی کے مطابق ’ثَبَتَ‘ کے معنی ایک حالت پر جمے رہنے کے ہیں۔ اسی ’ثَبَتَ‘ سے لفظ ’اَلَثَّبَاتُ‘ ہے جو زوال کی ضد ہے۔
اپنے معنی کی رعایت سے ’ثَبَتَ‘ سے پھوٹنے والے الفاظ ثابت، ثبوت، یثبت، تثبیت وغیرہ میں جمانا، پختہ کرنا، محقق و موکد کرنا، دل مضبوط کرنا، بہادر بنانا، ثابت قدم رکھنا، حجت، برہان، دلیل وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
فلکیات یا علم ہیئت کی اصطلاح میں اجرام فلکی میں سے ایسے ’جرم/ ستارے‘ کو جو کسی مدار پر گردش نہ کرے یعنی غیر متحرک ہو، ’ثابت‘ کہا جاتا ہے اور اس غیر متحرک ستارے (ثابت) کی ضد ’سیارہ‘ ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جسے ہم اردو اور ہندی میں ’ستارا‘ کہتے ہیں وہ جُزوی تبدیلی کے ساتھ انگریزی کے آسمان پر ’اسٹار/star‘ بن کر چمک رہا ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں تو انگریزی ’اسٹار‘ کی اصل لفظ ’ستارا‘ ہے۔ ستاروں کا قصہ کسی اور روز کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔ فی الحال ’سیارہ‘ کی بات کرتے ہیں۔
عربی لفظ ’سیر‘ اور اس سے مشتق تمام الفاظ میں چلنے پھرنے یا گھومنے پھرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اول تو خود لفظ ’سیر‘ ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے، پھر اگر اس کے ساتھ ہندی کا ’سپاٹا‘ لگ جائے تو اس کی رفتار بصورت ’سیر سپاٹا‘ اور بڑھ جاتی ہے۔
اسی ’سیر‘ سے لفظ ’سیرت‘ بھی ہے، جو اردو ترکیب ’چال چلن‘ کی خوبصورت ترجمانی کرتا ہے کہ ان ہر دو الفاظ کو انسان کے کردار و عمل سے نسبت ہے۔
اب اس گھومنے پھرنے کی مفہوم کو پیش نظر رکھیں اور اول اجرام فلکی میں سے محو گردش اجرام پر غور کریں تو بات خود ہی سمجھ آجاتی ہے کہ انہیں ’سیارہ‘ کیوں کہا جاتا ہے۔
جب انسانی تمدن آگے بڑھا اور برق و بھاپ کی قوت پر قابو پانے کے ساتھ انسان صنعتی دور میں داخل ہوا تو جو نو بہ نو ایجادات سامنے آئیں ان میں سے ایک ’موٹرکار‘ بھی تھی۔ چونکہ گاڑیاں یہاں سے وہاں فراٹے بھرتی پھرتی ہیں، سو اہل عرب نے اس چلت پھرت کی نسبت انہیں بھی ’سیارہ‘ پکارا۔
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حرف ’ر‘ اور ’ل‘ اکثر صورتوں باہم بدل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’باولا‘ کب ’باورا‘ ہو جاتا ہے پتا نہیں چلتا۔
اس تبدیلی کی ایک دل چسپ مثال ’لوٹا‘ ہے۔ جس میں لوٹنے اور پلٹ کر آنے کا مفہوم پایا ہے۔ جی یہ وہی لوٹا ہے جس کے بارے میں پروین شاکر کہہ گئی ہیں ’جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا‘۔
اگر ’لوٹا‘ کا یہ مفہوم پیش نظر ہو تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہندی کے ’لوٹا‘ کو انگریزی کے ’روٹا / Rota‘ سے کیا نسبت ہے اور کس طرح انگریزی الفاظ روٹری/ Rotary اور روٹیشن / Rotation وغیرہ اپنے لوٹنے اور پلٹنے کے مفہوم کی وجہ سے ’لوٹا‘ سے جا ملتے ہیں۔
حرف ’ر‘ اور ’ل‘ کی اس باہم تبدیلی کے تناظر میں ’سیار‘ کے ساتھ لفظ ’سیال‘ پر غور کریں اب کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ بہ ظاہر دو مختلف الفاظ کا مشترکہ مفہوم ’چلنا‘ ہے۔ چونکہ ہر مائع چیز میں بہنے کی خاصیت پائی جاتی ہے سو اس رعایت سے اس کو ’سیال‘ کہتے ہیں۔ اب اس لفظ کی نسبت سے جناب قتیل شفائی کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: