’شاید ون ڈے کرکٹ میں یہی بابر اعظم کا قدرتی کھیل ہے‘
ایشیا کپ 2023ء میں پاکستان نے فاتحانہ آغاز کردیا ہے۔ نیپال کے خلاف پاکستانی ٹیم کی ویسی ہی کارکردگی تھی جیسی کہ رینکنگ میں پہلے نمبر کی ٹیم سے امید کی جا سکتی ہے۔ اوپنرز نہ چل پائے لیکن بابر اعظم کی شاندار اننگ کا ساتھ افتخار احمد نے بھرپور انداز سے دیا اور اتنا اسکور بنا دیا کہ نیپال کی ٹیم کے لیے اپ سیٹ کرنے کا کوئی موقع ہی نہ رہا۔ رہی سہی کسر پاکستانی باؤلرز نے پوری کر دی، جنہوں نے نیپالی بیٹسمینوں کو کوئی موقع نہ دیا اور ایک بڑے مارجن سے فتح پاکستان کے نام رہی۔
ایشیا کپ پاکستان میں ہونا تھا مگر بھارت کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے پاکستان کو صرف چار ہی میچز کی میزبانی مل سکی جس میں سے یہ پہلا میچ ملتان میں تھا جبکہ باقی تینوں میچز لاہور میں کھیلے جانے ہیں۔ میچ کے آغاز پر تماشائیوں کی تعداد مایوس کن تھی لیکن جوں جوں پاکستانی اننگ آگے بڑھتی رہی، تماشائیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایشیا کپ کے تمام میچز اگر پاکستان میں ممکن ہو پاتے تو شائقین کرکٹ کے لیے یہ دن کسی جشن سے کم نہ ہوتے۔
فخر زمان افغان سیریز کے بعد ایشیا کپ کے پہلے میچ میں بھی بڑا سکور نہیں کر پائے۔ فخر پچھلے تین چار میچز سے جس طرح کھیل رہے ہیں انہیں دیکھ کر لگتا یہی ہے کہ فخر آؤٹ آف فارم ہیں۔ تو کیا فخر کو ڈراپ کر دینا چاہیے؟ لیکن کیا فخر زمان جب بڑی اننگز کھیلتے ہیں تو بھی شروع میں ایسے ہی آؤٹ آف فارم نہیں لگتے۔ فخر نے تو جب اپنی چیمپیئنز ٹرافی والی یادگار اننگ کھیلی تھی، تب بھی دھونی کو کیچ پکڑا دیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جسپریت بمرا کا کہ وہ نو بال ہوگئی اور اس کے بعد فخر نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
لیکن کیا فخر کی وہ واحد یادگار اننگ ہے؟ پاکستان کی جانب سے سب سے بڑی ون ڈے اننگ، جنوبی افریقہ کے خلاف ہدف کے تعاقب میں ایک اور بہترین اننگ اور پھر ابھی اپریل میں نیوزی لینڈ کے خلاف 337 رنز کے تعاقب میں فخر کی 180 رنز کی اننگز اگر ہم بھلا دیں تو فخر کو ڈراپ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ہاں، یاد آیا کہ 180 رنز کی وہ اننگ فخر کی تین ون ڈے اننگز میں لگاتار تیسری سنچری تھی۔
دونوں اوپنرز کے جلدی پویلین لوٹ جانے کے بعد بابر اعظم کا آغاز ایک بار پھر نسبتاً سست رہا لیکن جیسے جیسے کریز پر وقت گزرتا گیا، بابر کے رنز بنانے کی رفتار بڑھتی چلی گئی۔ بابر کی جانب سے یہ ایک اور شاندار ون ڈے سنچری تھی لیکن بابر کی اننگ کے آغاز میں کچھ بہتری کی ضرورت ہے۔
اننگ کے شروع میں بابر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید بابر کے دل میں ڈر ہے کہ اگر بابر کی وکٹ گرگئی تو ٹیم جانے ایک اچھا سکور کر پائے گی یا نہیں۔ باؤلر کے گیند پھینکنے سے پہلے ہی لگتا ہے کہ جیسے بابر اعظم کا ارادہ زیادہ سے زیادہ سنگل لینے کا ہے اور اسی دوران کچھ ہلکی گیندیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ شاید بابر اننگ کے پہلے حصے میں اپنا قدرتی کھیل نہیں کھیل رہے ہوتے، یا پھر شاید ون ڈے کرکٹ میں یہی بابر اعظم کا قدرتی کھیل ہے۔ اس اننگ کے دوران بابر اعظم نے ون ڈے کرکٹ میں تیز ترین 19 سنچریوں کا ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔ بابر نے 19 سنچریاں 102 اننگز میں بنائیں۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ہاشم آملہ کے پاس تھا جنہوں نے 19 سنچریوں کے لیے 104 اننگز کھیلیں۔ اسی اننگ کے درمیان بابر نے سندیپ لاماچین کو ایکسٹرا کور پر جو شاندار چھکا لگایا اسے کل کے میچ کا بہترین شاٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔
افتخار احمد ڈومیسٹک کرکٹ میں ون ڈے میں اچھی کارکردگی دکھا کر ٹیم میں آئے تھے لیکن پاکستانی ٹیم میں انہیں مسلسل مواقع نہ مل سکے۔ افتخار احمد لیٹ مڈل آرڈر میں لمبی ہٹنگ کے ساتھ ساتھ بڑی اننگ بھی کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں مگر ابھی تک انہیں یہ مہارت دکھانے کا بھرپور مواقع نہیں مل سکے۔ نیپال کے خلاف پاکستان کی چار وکٹیں ذرا جلدی گر گئیں اور یوں افتخار کو وہ موقع مل گیا جس کا انہیں انتظار تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف بھی افتخار نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ٹیم کو جتوا نہ سکے تھے۔
شاہین آفریدی اور پہلے اوور کی وکٹس تو جیسے اب لازم و ملزوم ہو گئی ہیں۔ اس بار شاہین پہلے ہی اوور میں دو وکٹیں حاصل کر گئے لیکن پانچ اوورز میں کچھ خاص ردھم نہیں بن پایا۔ کچھ اچھی گیندیں تو کیں لیکن لائن اور لینتھ شاہین کے شایان شان نہ تھی۔ امید ہے کہ ٹورنامنٹ میں آگے جاتے ہوئے بہتری نظر آ جائے گی۔ شاہین آفریدی کا اوپننگ اسپیل میں ساتھ دینے والے نسیم شاہ کی لینتھ میں بھی روٹین سے زیادہ تغیر تھا۔ نسیم شاہ ون ڈے کرکٹ میں عموماً ایک ہی لینتھ پر گیندیں کرتے ہیں اور اپنی سوئنگ سے بیٹسمینوں کو پریشان کرتے ہیں لیکن نسیم نیپال کے خلاف اس میچ میں لینتھ میں کافی تبدیلیاں کرتے دکھائی دیے۔
حارث رؤف نے بھی عمدہ باؤلنگ سے دو وکٹیں حاصل کیں لیکن تینوں فاسٹ باؤلر گرمی سے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ شاید ملتان کی گرمی میں فاسٹ باؤلرز کو پانچ اوورز کے اسپیل دینے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ آگے پاکستانی ٹیم کو مسلسل میچز کھیلنے ہیں اور ورلڈکپ جیسا اہم ایونٹ سر پر ہے تو اپنے بہترین فاسٹ باؤلرز کے بارے میں حتی الامکان احتیاط لازم ہے۔
پاکستان کی جانب سے شاداب خان نے چار وکٹیں حاصل کیں لیکن اس اننگ کے دوران شاداب کی باؤلنگ کی خاص بات گوگلی تھی جو اچھا خاصا ٹرن لیتی رہی۔ ٹی20 کرکٹ کی بہتات نے شاداب خان کی باؤلنگ کا وہ جادو کم کر دیا ہے جو شروعات میں موجود تھا۔ لیکن اگر شاداب اسی طرح گیند کی رفتار کو تھوڑا کم رکھتے ہوئے وکٹیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ کپتان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔ ایشیا کپ میں پاکستان کا اگلا میچ بھارت کے خلاف دو ستمبر کو ہوگا۔