کراچی میں شارع فیصل پر آنے والے شیر کو قابو کرلیا گیا
کراچی کے علاقے شارع فیصل پر عائشہ باوانی کالج کے قریب سڑک پر شیر نکل آیا، جس سے بعد ازاں پولیس اور محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کو طلب کرکے قابو کرلیا گیا۔
کراچی ساؤتھ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) شیراز نذیر نے ڈان کو بتایا کہ شیر ایک گاڑی میں سوار تھا تاہم عائشہ باوانی کالج کے قریب گاڑی سے سڑک پر اترا اور رہائشی عمارت کی پارکنگ میں ایک گاڑی کے نیچے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے واقعے کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور محکمہ وائلڈ لائف کے ساتھ ساتھ کراچی میٹروپولیٹن کے حکام کو شیر قابو کرنے کے لیے عملہ بھیجنے کا کہا گیا۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ اس دوران شیر کے مالک نے بیلٹ باندھ کر قابو کرنے کی کوشش کی جبکہ پولیس نے مالک کو حراست میں لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شیر کو پکڑنے کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کردیا گیا ہے، اگر محکمے نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تو شیر کے مالک شمس اور دیگر تین افراد کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ درج کردیا جائے گا۔
ایس ایس پی نے کہا کہ شیر کا مالک شمس ایک تاجر اور کراچی کے علاقے گارڈن کا رہائشی ہے اور انہوں نے پولیس کو بتایا کہ شیر گزشتہ 3 روز سے بیمار تھا اور کچھ کھا بھی نہیں رہا تھا۔
مالک نے پولیس کو بتایا کہ وہ شیر کو جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہے تھے کہ وہ راستے میں گاڑی سے اتر کر بھاگ نکلا۔
پولیس افسر نے بتایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ شیر کو لے جاتے وقت مطلوبہ حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے کیونکہ زنجیر نہیں بندھی ہوئی تھی۔
اس سے قبل محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے سربراہ جاوید احمد مہر نے بتایا تھا کہ محکمے کو اطلاع ملی ہے کہ عائشہ باوانی کے علاقے میں ایک شیر نکل آیا ہے۔
ٹی وی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پالتو شیر شارع فیصل پر ایک شہری کے ساتھ چہل قدمی کر رہا ہے اور شہری اس کو سہلا رہے ہیں، اس کے بعد شیر آگے بڑھتا ہے اور ایک عمارت کی پارکنگ میں داخل ہوگیا۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محکمہ وائلڈ لائف سندھ جاوید مہر نے بتایا کہ یہ شیر بظاہر پالتو ہے اور اسے مالک باآسانی قابو کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وائلڈ لائف قانون 2022 کے تحت گھروں میں شیر پالنے کی اجازت نہیں ہے اور چند لوگوں نے غیرقانونی طور پر گھروں میں شیر پال رکھے ہیں۔
انہوں نے شہریوں سے شیر سے دور رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ وائلڈ لائف کے عملے کو وہاں بھیج دیا گیا ہے۔
نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے معاملے کا نوٹس لیا اور رہائشی علاقے میں شیر رکھنے سے متعلق وائلڈ لائف سے انکوائری رپورٹ طلب کرلی۔
انہوں نے کہا کہ کس قانون کے تحت اور کس کی اجازت سے شیر کو رہائشی علاقے میں رکھا گیا ہے، وزیراعلیٰ نے وائلڈ لائف کے ساتھ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو بھی تعاون کرنے کی ہدایت کردی۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری میں اسلام آباد کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک گھر میں تیندوا گھس آیا تھا جس سے رہائشی افراد خوف زدہ ہوگئے تھے، تاہم رات گئے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ٹیم نے 6 گھنٹوں بعد قابو کرلیا تھا۔
وائلڈ لائف کی ٹیم تیندوے کو پنجرے میں ڈالنے میں ناکام رہے تو رات 10 بجے کے قریب اہلکاروں نے تیندوے کو مکمل طور پر بے ہوش کردیا تھا جس کے بعد تیندوے کو بند جگہ پر قید کیا گیا تھا۔
بعد ازاں رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ خوف پھیلانے والا تیندوا پالتو تھا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے ڈائریکٹر طارق بنگش نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ جنگلی نہیں بلکہ ایک پالتو تیندوا ہے لیکن وہ بے انتہا ڈرا ہوا ہے اور اسی وجہ سے مسلسل غرا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تیندوے کی عمر دو سے تین سال کے درمیان ہے اور اسے حال ہی میں ریسکیو کیے گئے بھورے بھالو، چیتے اور متعدد بندروں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
طارق بنگش نے کہا تھا کہ ہمیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاقوں میں متعدد افراد نے تیندوے سمیت متعدد جنگلی جانوروں کو گھر میں پال رکھا ہے۔
سندھ میں وائلڈ لائف قوانین
سندھ میں 3 برس قبل وائلڈ لائف کے حوالے سے سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ منیجمنٹ ایکٹ 2020 کے نام سے نیا قانون بنایا گیا تھا تاکہ پرندوں کی 326 اقسام، 107 اقسام کے رینگنے والے جانوروں اور دیگر 82 اقسام کے جانوروں کی حفاظت کی جاسکے۔
قانون کے تحت کسی بھی جانور کی نجی سطح پر پالنے کے لیے کئی سخت شرائط رکھی گئیں جبکہ ماضی میں منی چڑیا گھر بنانے کے لیے دو مرحلوں پر افسران سے اجازت نامہ لیا جاتا تھا اور اس میں بھی کسی قسم کے جانوروں کی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔
شیر پالنے کے لیے 39 سخت شرائط رکھے گئے تھے، جس میں مالک کو جانور کی ڈی این اے سرٹیفکیٹ بھی درکار ہوتی تھی جو ملک بھر میں ایک بڑا ادارہ ہی کرسکتا ہے۔
وائلڈ لائف ایکٹ 2020 کے تحت شیروں کی درآمد کے لیے کوئی نئی درخواست پر غور نہیں کیا جائےگا، پرمٹ میں بھی شہریوں کو رہائشی علاقوں میں شیر پالنے سے پابند کیا گیا تھا اور درخواست گزار کے لیے لازم ہے کہ وہ متعلقہ یونین کونسل، ٹاؤن کمیٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ سے این او سی حاصل کرکے پیش کرے۔
ڈان کو اس وقت وائلڈ لائف کے ایک ماہر نے بتایا تھا کہ سندھ میں پالتو شیروں کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی ہے اور ان کی اکثریت کراچی میں ہے۔