کہانی: لینن گراڈ اور کڑکتے کاغذ کی خوشبو
مشرقی محاذ کا تاریک ہوتا آسمان میدان جنگ پر سرمئی کفن پھیلاتا محسوس ہورہا تھا۔ یخ بستہ ہوا کے جھکڑوں میں گہرا تناؤ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ مخالف قوتوں کے بوسیدہ پھریرے اور ٹوٹے ہوئے عَلم اس بات کے گواہ تھے کہ میدان مارنے کی کوششیں پہلے بھی ہوچکی ہیں۔
دہشت زدہ خاموشی میں ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ اور فوجیوں کے بھاری بوٹوں کی دھمک بار بار خلل ڈال رہی تھیں۔ آسمان تو ویسے بھی دشمن ہوتا ہے لیکن اس پر اب جنگی طیاروں کی مسلسل پروازیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ آسمان سے موت بھی برسے گی۔
سپاہیوں کی آنکھوں میں پچھلے سیکڑوں دنوں سے جاری اس جنگ کی ہزار ان کہی کہانیوں، گھر کے خوابوں اور اپنے پیچھے چھوڑے گئے پیاروں کے عکس دیکھے جاسکتے تھے۔ خوف اور بے یقینی کے سائے ان کے چہروں پر ناچ رہے تھے۔ اس لمحے میں وہ صرف جنگجو نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جن کی امیدیں، خواب اور خاندان ان کی واپسی کے منتظر تھے۔ فضا ان کے جذبات سے بوجھل ہوئی جاتی تھی۔ پھر بھی سامنے نظر آنے والی اٹل موت کے وحشت ناک اندھیروں کے بیچ ایک شعلہ لپک رہا تھا جو امید تھی واپسی کی، بچ جانے کی، زندہ رہ جانے کی۔
یہ سوویت یونین میں موجود لینن گراڈ کا خوبصورت شہر ہے جسے زار عظیم پیٹر نے 1703ء میں بنایا تھا۔ اب دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اسے فتح کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہا ہے۔ جرمن فوج ’ویئرماخت‘ کے سپاہی لینن گراڈ کے مضافات میں ایم پی 40 سب مشین گنوں اور 98-کے رائفلوں سے لیس ٹائیگر-1 ٹینکوں کے پیچھے اپنی صفیں درست کیے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کی سبزی مائل سرمئی وردیوں کے اوپر ماڈل-24 کے لکڑی کے دستوں پر مشتمل لمبوترے گرینیڈ بم قطار میں اٹکے ہوئے تھے۔ لکڑی کے دستوں کی وجہ سے یہ گرینیڈ دور تک پھینکنے میں آسانی ہوتی تھی۔
انہیں سپاہیوں میں 19 سالہ فریڈرک ویگنر بھی مارچ کررہا تھا۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا لیکن تمام جوانوں کی طرح جنگ نے اسے بھی کتاب کی جگہ بندوق پکڑا دی تھی۔ وہ بار بار اپنے سر پر موجود ایم-42 نامی ہیلمٹ کی موجودگی اسے ہاتھ لگا کر محسوس کرتا اور چلتا جاتا۔ اسے یقین تھا کہ یہ چھوٹی موٹی گولیوں سے اس کے سر کو بچا لے گا۔ اسے برستے بادلوں کے موسم میں نئی کتاب پڑھتے ہوئے کڑکتے کاغذ کی خوشبو سے محبت تھی لیکن جنگ کی چنگھاڑ اس کے سارے خواب اڑا لے گئی تھی۔ اب ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ اور بارود کی تیز بو اس میں نفرت بھرتی جارہی تھی۔ اسے جنگ سے نفرت تھی۔
دوسری جانب اپنے دفاع کے لیے پُرعزم سوویت یونین کی ’سرخ فوج‘ کے سپاہی ڈھلوان دار بکتر اور 76 ملی میٹر کی خونخوار نال رکھنے والے ٹی-34 ٹینکوں کے ہمراہ دشمن سے نمٹنے کے لیے لینن گراڈ کے مضافات کا رخ کیے ہوئے تھے۔ لمبے اونی کوٹوں کے اوپر 500 میٹر تک مار کرنے والی بولٹ ایکشن رائفلیں لٹکائے وہ تاریخ کے طوفانوں سے دوچار پرانے جنگجو دکھائی دے رہے تھے۔ مادر روس کی عقیدت میں ڈوبے یہ سپاہی پُرعزم تھے کہ دشمن کو مضافات سے آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔
ان میں 22 سالہ تنومند جثے والا نکولائی رومانوف بھی شامل تھا۔ اس کا دل کھیتوں اور مٹی کی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔ کسان کی زندگی میں محبت کرنے کو اور ہوتا ہی کیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک مدھم امید جنگ کے اس شوروغل میں بھی چمک رہی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے سینچے ہوئے کھیتوں میں واپس جانے کی امید، لیکن گزرتا وقت یہ چمک ماند کیے جاتا تھا۔ اس کے پاؤں خوف اور نفرت سے زمین پر پڑ رہے تھے۔ اسے جرمنوں سے نفرت تھی، اسے جنگ سے نفرت تھی۔
جنگ کی دیوی برف سے ڈھکے اس وسیع و عریض سفید کینوس پر لال رنگ میں ڈوبا برش لیے اپنا عظیم تجریدی آرٹ تخلیق کرنے کو بے چین تھی۔ سلطنتوں کی بھیانک بساط میں یہ تمام پیادے اپنی اپنی قوم کے ڈراؤنے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے کے لیے پھر سے خون ریز چالیں چلنے کو تیار تھے۔
پھر دو مختلف زبانوں میں لگتے نعروں کی گونج نے لینن گراڈ کی فضا کو دہلا دیا۔ تاریخ نے سرد مہری سے فولاد، آگ اور متزلزل ارادوں کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامہ خیز داستان کو رقم کرنا شروع کیا۔ دہشت ناک تباہی کے ترتیب پاتے جہنم میں توپ خانے کی گرج اور جنگی طیاروں کی کان چھید دینے والی چنگھاڑ فضا میں پھیل گئی۔ ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ بلند ہوتی جارہی تھی اور ان کی دھاتی پٹڑیاں اپنے نیچے آنے والی ہر شے کو کچل کر آگے بڑھتی جارہی تھیں۔
یہ جرمن فوج کا شدید حملہ تھا لیکن مادرِ روس کے سپوت ثابت قدم تھے۔ اسی افراتفری میں ایک جرمن فوجی کے پیٹ سے بندوق کے آگے لگی برچھی نکالتے ہوئے نکولائی رومانوف نے گھوم کر اگلا شکار ڈھونڈنا چاہا تو اسے ایک جرمن ٹینک کی آڑ لیے چھپ چھپ کر گولیاں چلاتا ہوا ایک ہونق نوجوان سپاہی نظر آیا جو ہر گولی داغنے کے بعد اپنے سر پر ہیلمٹ چیک کرتا تھا۔
نکولائی کو ایک دم خاک اور خون سے رستے اس میدان میں خیال آیا کہ یہ کیسا جبر ہے کہ اس معصوم اور مجھ جیسے کسان کو جنگ کا ایندھن بنا دیا گیا ہے۔ اسی اثنا میں اس کو اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس ہوئی۔ اس نے پلٹ کر بندوق کے دستے سے وار کیا اور ایک اور جرمن سپاہی موت سے ہمکنار ہوا۔
اچانک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور نکولائی کے عقب میں موجود سوویت ٹینک سے نکلتا گولا شام میں پھیلتے کہرے کو رنگین کرتا ہوا جرمن فوج کی صفیں چیر گیا۔ نکولائی کے کان اس دھماکے سے سُن ہوچکے تھے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ نوجوان اسے کہیں نظر نہیں آیا۔ جرمن فوج کے قدم اکھڑ چکے تھے۔ جنگ کی تال مدھم پڑنے پر قسمت کا پیچیدہ رقص اختتام کو پہنچ رہا تھا۔
تقریباً 900 دن جاری رہنے والی لینن گراڈ کی یہ جنگ سرخ فوج جیت چکی تھی۔ بکھرے ہوئے جرمن فوج کے سپاہیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے نکولائی کو اس نوجوان کی لاش نظر آئی۔ اس کے سر پر اب ہیلمٹ موجود نہیں تھا۔ ٹینک کا گولا ہیلمٹ کے ساتھ اس کا تقریباً آدھا سر بھی اُڑا کر لے گیا تھا۔ اس کے اوور کوٹ کی جیب میں کچھ چمکتا محسوس ہورہا تھا۔
نکولائی رومانوف نے جھک کر اس کی جیب ٹٹولی تو اسے پلاسٹک کے تھیلے میں لپٹی ایک چھوٹی سی کتاب ملی۔ پلاسٹک اتار کر اس نے کتاب کھولی تو وہ ایک بالکل نئی کتاب تھی۔ اس کو جرمن زبان تو نہیں آتی تھی تاہم اس نے کتاب کے صفحات کو انگوٹھے سے پھرولا تو اسے خوشبو آئی۔ نئی کتاب کے کڑک صفحات کی خوشبو۔