• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:25pm

ایشیا کپ 2023ء: پاکستان کے چیمپیئن بننے کے روشن امکانات

ایشیا کپ میں پاکستان کی کامیابی کے امکانات بےحد روشن ہیں اور وہ تیسری مرتبہ ایشیا کا چیمپیئن بننے کے لیے تیار نظر  آرہا ہے۔
شائع August 29, 2023

ایشیا کپ 2023ء، 30 اگست سے 17 ستمبر تک پاکستان اور سری لنکا میں کھیلا جارہا ہے۔ اس سولہویں ایڈیشن کی میزبانی کا اعزاز دراصل پاکستان کو حاصل تھا مگر بھارت پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں تھا لہٰذا ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) نے اراکین سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ بھارت اپنےتمام میچ سری لنکا میں کھیلے گا، اس لیے سری لنکا اور پاکستان ایشیا کپ کی مشترکہ میزبانی کریں گے۔

اب اس ٹورنامنٹ کے کُل 13 میچوں میں سے 9 سری لنکا اور 4 پاکستان میں کھیلے جائیں گے۔ افتتاحی میچ پاکستان کے شہر ملتان میں میزبان ٹیم اور نیپال کے درمیان کھیلا جائے گا۔ اس کے علاوہ مزید دو گروپ میچ اور ایک سپر فور میچ لاہور میں منعقد ہوں گے جبکہ سری لنکا 3 گروپ میچز کی کینڈی اور 5 سپر فور میچز اور فائنل کی میزبانی کولمبو میں کرے گا۔

اس سے قبل ایشیا کپ میں جو 15 ٹورنامنٹ کھیلے گئے، ان میں دو ایڈیشنز (2016ء اور 2022ء) کا انعقاد ٹی20 انٹرنیشنل فارمیٹ میں کیا گیا جبکہ 13 ایڈیشنز میں ایک روزہ کرکٹ کھیلی گئی۔ اب یہ ٹورنامنٹ ایک بار پھر ون ڈے فارمیٹ میں کھیلا جارہا ہے۔ اس میں اے سی سی کی مکمل رکنیت رکھنے والے پانچوں ممالک یعنی پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلا دیش اور افغانستان کی ٹیموں کے ساتھ چھٹی ٹیم نیپال کی ہے جس نے اے سی سی مینز پریمئیر کپ جیت کر اس ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔ نیپال پہلی مرتبہ ایشیا کپ کے کسی ایڈیشن میں حصہ لے رہا ہے۔

یہ 6 ٹیمیں دو گروپس میں تقسیم کی گئی ہیں۔ گروپ ’اے‘ پاکستان، بھارت اور نیپال پر مشتمل ہے جبکہ گروپ ’بی‘ میں سری لنکا، بنگلادیش اور افغانستان شامل ہیں۔ دونوں گروپ میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست آنے والی دو، دو ٹیمیں سپر فور کے مرحلے میں ایک دوسرے کے خلاف مقابلہ کریں گی۔ پھر ان میں سے ٹاپ پر آنے والی دو ٹیموں کے درمیان فائنل کھیلا جائے گا۔ گروپ میچ 30 اگست سے 5 ستمبر تک اور سپر فور میچ 6 ستمبر سے 15 ستمبر تک کھیلے جائیں گے۔

ایشیا کپ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب دو ٹیمیں مشترکہ طور پر کسی ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہی ہیں۔ اس سے قبل، بنگلادیش 5 مرتبہ ایشیا کپ کا میزبان رہ چکا ہے جبکہ سری لنکا اور متحدہ عرب امارات 4، 4 بار میزبانی کرچکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو صرف ایک، ایک بار ہی میزبانی کا موقع ملا۔ اب پاکستان دوسری مرتبہ جبکہ سری لنکا پانچویں بار اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کرے گا۔

اب تک کھیلے جانے والے 15 ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ ٹائٹل بھارت نے جیتے ہیں۔ اس نے 7 مرتبہ (1984ء، 1988ء، 1991ء، 1995ء، 2010ء، 2016ء اور 2018ء میں) ایشیا کپ حاصل کیا ہے۔ دوسرے نمبر پر سری لنکا ہے جو 6 مرتبہ (1986ء، 1997ء، 2004ء، 2008ء، 2014ء اور 2022ء) چیمپیئن بنا چکا ہے۔ پاکستان صرف 2 مرتبہ ایشیا کپ جیتنے میں کامیاب ہوا، ایک بار 2000ء میں جبکہ دوسری  دفعہ 2012ء میں۔

ایشیا کپ ٹورنامنٹ کا آغاز

ایشیا کپ کا آغاز ایشین کرکٹ کونسل کے قیام کے بعد ہوا جو 1983ء میں شارجہ میں قائم ہوئی۔ یہ کونسل ایشیا میں کرکٹ کے کھیل کو فروغ دینے اور اس کے ذریعے ایشیائی ممالک کے مابین باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس وقت ایشیا کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور سری لنکا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) کی مکمل رکنیت کے باعث بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے مجاز تھے لہذا، ابتدائی 4 برسوں کے دوران یہی تینوں ممالک ایشیا کپ کے مقابلوں میں حصہ لیتے رہے۔

پہلا ٹورنامنٹ 1984ء میں شارجہ میں منعقد ہوا جہاں اے سی سی کے دفاتر واقع تھے۔ دو سال بعد 1986ء میں دوسرا ایشیا کپ سری لنکا میں کھیلا گیا مگر بھارت نے میزبان ملک کے ساتھ سیاسی تنازعات کے باعث اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کیا۔ اگلا ٹورنامنٹ 1988ء میں کھیلا گیا جس میں بنگلادیش نے بھی حصہ لیا اور وہی اس ٹورنامنٹ کا میزبان بھی تھا۔ یوں ٹورنامنٹ میں ٹیموں کی تعداد 4 ہوگئی۔

پھر 91-1990ء کے ٹورنامنٹ کی میزبانی بھارت کو ملی مگر پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کی وجہ سے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ اس کے بعد 1993ء میں ایشیا کپ کا انعقاد پہلی مرتبہ پاکستان میں ہونا تھا مگر انہی سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے یہ ٹورنامنٹ منسوخ کردیا گیا۔

تاہم دو سال بعد 1995ء میں پانچواں ایشیا کپ کھیلا گیا تو اس کی میزبانی دوسری مرتبہ شارجہ ( یو اے ای) نے کی۔ اس میں بھی حسب سابق انہی 4 ممالک نے حصہ لیا۔ پھر انہی چاروں نے ایشیا کپ کے چھٹے اور ساتویں ایڈیشن میں بھی شرکت کی، جو بالترتیب 1997ء میں سری لنکا اور 2000ء میں بنگلا دیش  میں  منعقد  ہوئے۔

تاہم ایشیا کپ کے اگلے دو ٹورنامنٹ 4، 4 سال کے وقفوں سے کھیلے گئے اور ان دونوں میں ٹیموں کی تعداد 4 سے بڑھ کر 6 ہوگئی۔ یہ دو اضافی ٹیمیں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور ہانگ کانگ کی تھیں جنہیں آئی سی سی کی جانب سے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل چکی تھی۔ ان میں سے پہلا ٹورنامنٹ 2004ء میں سری لنکا اور دوسرا 2008ء میں پاکستان میں کھیلا گیا۔ اس طرح پاکستان کو پہلی بار ایشیا کپ کی میزبانی کا موقع ملا۔

2009ء میں اے سی سی نے فیصلہ کیا کہ ایشیا کپ اب ہر دو سال بعد منعقد ہوا کرے گا جبکہ آئی سی سی نے اس کے تمام مقابلوں کو ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی حیثیت دینے کا اعلان کیا۔ 2010ء میں ایشیا کپ کے دسویں ایڈیشن کا انعقاد سری لنکا اور 2012ء میں بنگلادیش میں ہوا۔ دونوں میں روایتی چار ٹیموں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلادیش نے حصہ لیا۔ تاہم 2014ء میں کوالیفائنگ راؤنڈ کے ذریعے افغانستان نے پہلی مرتبہ ایشیا کپ میں شرکت کی۔ اس طرح بنگلادیش میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں 5 ممالک نے حصہ لیا۔

2016ء میں پہلی مرتبہ ایشیا کپ کے مقابلے ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ کی طرز پر ہوئے اور یہ طے ہوا کہ اب یہ ٹورنامنٹ باری باری دونوں فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔ 2016ء کے ایڈیشن کا انعقاد بھی بنگلادیش ہی میں ہوا۔ اس طرح اس ملک نے ایشیا کپ کے مسلسل 3 ٹورنامنٹ کی میزبانی کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی 5 ٹیموں نے شرکت کی۔ اس مرتبہ پانچویں ٹیم متحدہ عرب امارات کی تھی۔

اگلا ٹورنامنٹ، جو ایشیا کپ کا چودہواں ایڈیشن تھا، ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی طرز پر 2018ء میں کھیلا گیا۔ اس میں 6 ٹیموں نے حصہ لیا۔ افغانستان کو بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل چکی تھی۔ چھٹی ٹیم ہانگ کانگ کی تھی جس نے اس ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کیا۔ گزشتہ ایڈیشن میں شریک ٹیم یو اے ای اس بار کوالیفائی تو نہیں کرسکی مگر اسے میزبانی کا اعزاز ضرور حاصل ہوا۔ دراصل، اس ٹورنامنٹ کی میزبانی بھارت کو کرنی تھی مگر پاکستان کے ساتھ اس کے سیاسی تنازعات کے باعث اسے یو اے ای منتقل کرنا پڑا۔

پندرہویں ایشیا کپ کا انعقاد 2020ء میں سری لنکا میں ہونا تھا مگر کورونا وبا کی آمد کے بعد اسے ملتوی کردیا گیا اور یہ طے ہوا کہ یہ ٹورنامنٹ جون 2021ء میں کھیلا جائے گا، مگر کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے یہ ایک بار پھر ملتوی ہوگیا اور فیصلہ ہوا کہ اب یہ ٹورنامنٹ 2022ء میں ہوگا۔ چونکہ 2022ء کے ایڈیشن کی میزبانی پہلے ہی سے پاکستان کے نام تھی لہٰذا یہ طے ہوا کہ 2022ء کے ایونٹ کا میزبان سری لنکا ہوگا اور پاکستان سولہویں ایڈیشن کا میزبان ہوگا جو 2023ء میں منعقد کیا جائے گا۔

بعد میں سری لنکا کے سیاسی اور معاشی بحران کے باعث ایشیا کپ یو اے ای منتقل کردیا گیا۔ تاہم، میزبان کی حیثیت سری لنکا کو ہی دی گئی۔ لہٰذا یہ ٹورنامنٹ ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ کے فارمیٹ پر امارات میں کھیلا گیا جس میں حسب سابق 6 ٹیموں یعنی بھارت، پاکستان، سری لنکا، بنگلادیش، افغانستان اور ہانگ کانگ  نے حصہ لیا۔

اب سولہویں ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کو کرنی تھی مگر بھارت نے یہ کہہ کر کہ اسے سیکیورٹی کے خدشات ہیں اپنے اس روایتی حریف کی سرزمین پر کھیلنے سے انکار کردیا۔ اس پر اے سی سی نے اراکین سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ اس ٹورنامنٹ کے 4 میچ پاکستان اور بقیہ 9 میچز، بشمول فائنل، سری لنکا میں کھیلے جائیں گے۔ بھارت اپنے تمام میچز سری لنکا میں کھیلے گا جن میں 2 ستمبر کو پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والا میچ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اگر سپر فور اور فائنل میں بھی یہ دونوں روایتی حریف باہم ٹکرائے تو یہ میچ بھی سری لنکا ہی میں کھیلے جائیں گے۔

پاک بھارت ٹاکرا

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایشیا کپ کی تقریباً 40 سالہ تاریخ میں کھیلے گئے 15 ٹورنامنٹ کے کسی بھی فائنل میں پاکستان اور بھارت آپس میں نہیں ٹکرائے۔ تاہم اس مرتبہ توقع ہے کہ فائنل میں یہ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے اور اس طرح ایشیا کپ کے سولہویں ایڈیشن کو یادگار بنا دیں گے۔

یہ ٹورنامنٹ اگرچہ ایشیا کپ کا سولہواں ایونٹ ہے اور ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی طرز پر کھیلا جائے گا۔ اس میں شریک 6 ٹیموں میں پاکستان اور بھارت اپنی حالیہ کارکردگی کی بنیاد پر فیورٹ قرار دیے جارہے ہیں۔ گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ٹی20 انٹرنیشنل کرکٹ کی طرز پر کھیلے گئے ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت دو بار باہم ٹکرائے۔ گروپ میچ میں بھارت نے پاکستان کو 5 وکٹ سے ہرایا مگر پھر سُپر فور میں پاکستان نے بدلہ لیتے ہوئے بھارت کو اتنے ہی مارجن سے شکست دی۔ تاہم، فائنل میں پاکستان کو سری لنکا سے مات ہو گئی۔

اگر ایشیا کپ کی تاریخ میں اب تک کھیلے گئے ون ڈے انٹرنیشنل کے 13 ٹورنامنٹ کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹائٹل جیتنے والا ملک اگرچہ بھارت ہے مگر مجموعی طور پر سب سے زیادہ میچ جیتنے والا ملک سری لنکا ہے جس نے 13 ٹورنامنٹ میں 34 فتوحات حاصل کیں۔ کامیابی کا سب سے زیادہ تناسب بھی اسی کا ہے جوکہ 68 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ میچ بھی سری لنکا نے ہی کھیلے ہیں جن کی تعداد 50 ہے۔ وہ ایشیا کپ میں ون ڈے انٹرنیشنلز کی نصف سنچری مکمل کرنے والا واحد ملک ہے جبکہ بھارت نے 49، پاکستان نے 45 اور بنگلادیش نے 43 میچ کھیلے ہیں۔ بھارت نے 31 میچز میں کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان نے 26 میچز میں فتوحات سمیٹیں۔ دونوں کی کامیابی کا تناسب بالترتیب 65.62 فی صد اور 59.09 فیصد ہے۔

ایشیا کپ 2023ء کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر اس ٹورنامنٹ کے ریکارڈ کاجائزہ لیا جائے تو بھارت کو پاکستان پر معمولی فوقیت نظر آتی ہے۔ اب تک دونوں روایتی حریف ایشیا کپ میں ایک دوسرے کے خلاف 13 ون ڈے انٹرنیشنلز کھیل چکے ہیں۔ ان میں سے بھارت نے پاکستان کو 7 میچوں میں شکست دی جبکہ پاکستان نے بھارت کو 5 میچوں میں ہرایا۔ ایک میچ بے نتیجہ رہا۔ تاہم دونوں ٹیموں کی حالیہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو پاکستان کی ٹیم بہتر حیثیت میں نظر آتی ہے۔

پاکستان، ون ڈے کی نمبر ون ٹیم

ایشیا کپ 2023ء سے صرف 4 دن قبل پاکستان نے افغانستان کو سری لنکا کے نیوٹرل مقام پر ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کے تینوں میچوں میں شکست دے کر کلین سویپ کیا ہے اور آئی سی سی کی عالمی رینکنگ میں آسٹریلیا سے ٹاپ پوزیشن چھین کر سر فہرست آگیا ہے۔ وہ اب 118 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ بھارت اس سے دو نمبر پیچھے ہے اور 113 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ ایشیا کپ میں شامل دیگر ٹیموں میں بنگلادیش، سری لنکا اور افغانستان بالترتیب ساتویں، آٹھویں اور نویں نمبر پر موجود ہیں۔ نووارد نیپال کو پندرہویں پوزیشن حاصل ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان سب سے آگے نظر آرہا ہے اور ایونٹ کا ہاٹ فیورٹ ہے۔

انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر بھی آئی سی سی نے کھلاڑیوں کی جو تازہ ترین درجہ بندی جاری کی ہے اس کے مطابق بلے بازوں میں پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم 880 پوائنٹس کے ساتھ عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ ان کے ساتھی اوپنرز امام الحق تیسرے جبکہ فخر زمان پانچویں نمبر پر ہیں۔ بھارت کے شبمن گل کا چوتھا اور ویرات کوہلی کا نواں نمبر ہے۔

تاہم باؤلنگ میں افغانستان کے کھلاڑیوں کو پاکستان اور بھارت پر برتری حاصل ہے۔ پیسر مجیب الرحمٰن تیسرے اور اسپنر راشد خان چوتھے نمبر پر موجود ہیں جبکہ بھارتی پیسر محمد سراج کو پانچویں اور اسپنر کلدیپ یادیو کو دسویں پوزیشن حاصل ہے۔ پاکستان کے تیز رفتار باؤلر شاہین شاہ آفریدی نویں نمبر پر موجود ہیں۔ آل راونڈرز کی رینکنگ میں بنگلادیش کے شکیب الحسن پہلے اور افغانستان کے محمد نبی دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ سری لنکا کے ونندو سارنگا آٹھویں اور بنگلادیش کے مہدی حسن 9ویں نمبر پر موجود ہیں۔

  آئی سی سی ون ڈے رینکنگ—تصویر: آئی سی سی/اسکرین شاٹ
آئی سی سی ون ڈے رینکنگ—تصویر: آئی سی سی/اسکرین شاٹ

بہرحال ان حقائق اور اعدادوشمار کی روشنی میں اور ٹیموں کی حالیہ کارکردگی اور کھلاڑیوں کی موجودہ مہارت و صلاحیت کی بنیاد پر یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ایشیا کپ 2023ء میں پاکستان کی کامیابی کے امکانات بےحد روشن ہیں اور وہ اس مقابلے کی تاریخ میں تیسری مرتبہ چیمپیئن بننے کے لیے تیار نظر  آرہا ہے۔


ہیڈر: اے سی سی

مشتاق احمد سبحانی

مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔