آفیشل سیکرٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ کی قانونی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر درخواست واپس
سپریم کورٹ کے دفتر نے اس درخواست کو واپس کردیا جس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ (او ایس اے) اور پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) قوانین کی قانونی حیثیت کے سوال کو حل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جب کہ صدر عارف علوی نے بیان دیا تھا کہ انہوں نے ان بلوں پر دستخط نہیں کیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے بیان میں صدر مملکت نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے۔
صدر مملکت کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب بیان سے ایک روز قبل یہ دونوں بل قانون بن گئے تھے جس کے بعد بڑا تنازع پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صدر مملکت نے اپنے پرنسپل سیکریٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردی تھیں۔
ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ کی جانب سے دائر درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی تھی کہ وفاقی حکومت کو 10 روز کے اندر آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت اس معاملے پر سپریم کورٹ سے وضاحت لینے کی ہدایت کی جائے۔
آرٹیکل 186، سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار سے متعلق ہے جس کے تحت حکومت کسی قانونی یا آئینی ابہام پر عدالتی رائے جاننے کے لیے ریفرنس بھیج کر وضاحت کی درخواست کر سکتی ہے۔
درخواست واپس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ درخواست گزار نے ایک آئینی درخواست میں متعدد استدعا کیں۔
اس کے علاوہ درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے کون سے نکات اس معاملے سے متعلق ہیں۔
رجسٹرار آفس نے کہا کہ درخواست گزار نے انفرادی شکایت کے ازالے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے غیر معمولی دائرہ اختیار کے نفاذ کا مطالبہ کیا جو کہ جائز نہیں۔
رجسٹرار آفس نے مزید کہا کہ درخواست گزار نے ریلیف کے لیے کسی اور مناسب فورم سے رجوع کیا، نہ ہی ایسا کرنے کی کوئی وجہ بتائی۔
ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ نے استدعا کی تھی کہ ان قوانین کی قانونی حیثیت کا تعین کرنا ضروری ہے جب کہ صدر مملکت نے نہ تو ان بلوں کی منظوری دی اور نہ ہی انہیں واپس بھیجا۔
تین صفحات پر مشتمل پٹیشن میں ذوالفقار علی بھٹہ نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ، وفاقی حکومت کو 10 روز کے اندر آئین کے آرٹیکل 186 کو نافذ کرنے کا حکم دے۔
آرٹیکل 186 سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیار سے متعلق ہے جسے حکومت بلوں، خاص طور پر آئین کے آرٹیکلز 71 اور 75 کے پیش نظر قانونی حیثیت سے متعلق سوال پر اس کی رائے جاننے کے لیے عدالت عظمیٰ کو ریفرنس بھیج سکتی ہے۔
یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا سہارا لیا گیا ہے، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ترمیمی بل انتہائی حساس ہیں جن سے ملزمان متاثر ہوں گے۔
درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ نے بروقت اس معاملے کو حل نہ کیا تو مستقبل میں ان بلوں کے تحت لوگوں کے خلاف پراسیکیوشن بری طرح متاثر ہوگی اور تفتیشی اداروں کی تمام کوششیں بے سود ہو جائیں گی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ الزامات سے بری ہونے کے بعد بری ہونے والے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور دیگر متعلقہ افسران کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 219 اور 220 کے مقدمات درج کر اسکتے ہیں۔
سیکشن 219 کہتا ہے کہ جو سرکاری ملازم بدعنوانی یا بدنیتی سے عدالتی کارروائی کے کسی مرحلے پر کوئی رپورٹ، حکم یا کوئی ایسا فیصلہ دیتا ہے جسے وہ قانون کے خلاف جانتا ہے، اسے 7 سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح سیکشن 220 کہتا ہے کہ کسی ایسے شخص کی جانب سے جو یہ جانتا ہو کہ وہ قانون کے خلاف کام کر رہا ہے، اسے بھی مقدمے یا قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔