آنتوں کے مسائل سے پارکنسنز بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف
ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ قبض، گلے میں درد اور آنتوں کے مسائل سے اعصابی اور دماغی بیماری پارکنسنز کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اس سے قبل 2017 میں ہونے والی تحقیق میں امریکی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پارکنسنز بیماری جن جراثیم کے باعث پیدا ہوتی ہے، وہ ممکنہ طور پر آنتوں میں افزائش پاتے ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ ماہ ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ دائمی قبض سے جہاں دیگر طبی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، وہیں اس سے دماغی تنزلی بھی بڑھتی ہے جو ’ڈیمینشیا‘ اور ’الزائمر‘ جیسی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
تاہم اب امریکی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ حال ہی میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دماغ (پارکنسنز بیماری) اور آنتوں کی صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
برطانوی طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے لیے ماہرین نے پارکنسنز میں مبتلا 24 ہزار 624 افراد کا طبی ریکارڈ کا تجزیہ کیا اور ان کا موازنہ درج ذیل لوگوں کے ساتھ کیا۔
19 ہزار 46 افراد جو الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
23 ہزار 942 ایسے افراد جن کو ماضی میں دماغ میں چوٹ لگنے سے خون نکلا ہو۔
اور صحت مند دماغ والے 24 ہزار 624 افراد شامل ہیں۔
سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا مریضوں کو پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص ہونے سے قبل 5 سال کے دوران آنتوں کے مسائل کا سامنا ہوا؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا آنتوں کے مسائل میں مبتلا مریضوں میں پارکنسنز ہونے کا امکان زیادہ تھا؟
ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ماہرین نے 5 سال کا ڈیٹا جمع کیا، اس ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر مذکورہ سوالات کا جواب ’ہاں‘ میں آیا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ خاص طور پر ایسی 4 حالات ہوتی ہے جن کی وجہ سے پارکنسنز کی بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پہلی علامت قبض، دوسری علامت نگلنے میں دشواری کا سامنا ہونا، مثال کے طور پر کھانا یا پانی پینے کے دوران گلے میں درد ہونا۔
تیسری علامت گیسٹروپیریسس ہے، یعنی ایک ایسی حالت جس میں معدہ معمول کے مطابق خود کو خالی کرنے میں زیادہ وقت لگاتا ہے، اس کی عام علامات میں سینے میں جلن، متلی، الٹی شامل ہے اور چوتھی علامت ہاضمے کے مسائل شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپینڈکس کا آپریشن کروا لینے سے پارکنسنز کی بیماری کے امکانات کم ہوتے ہیں، اس بات کو کئی سائنسدان بھی تسلیم کرچکے ہیں۔
نظام انہضام میں لاکھوں اعصابی خلیات (nerve cells) ہوتے ہیں جو دماغ کو پیغامات بھیجنے کا کام کرتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایک عضو کا علاج کرنے سے جسم کے دوسرے عضو بھی متاثر ہوتے ہیں، یا پھر ایک عضو میں بیماری ہونے سے جسم کے دیگر عضو میں بھی بیماری پھیل سکتی ہے۔
پارکنسنز پر تجزیہ کرنے والے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کلیئر بیل مذکورہ تحقیق کے نتائج سے اتفاق کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آنتوں کے مسائل پارکنسنز کی بیماری کی علامات ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر کم بیرٹ نے کہا ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے کہ آیا ایسی کوئی چیز سامنے آئی ہے جس سے ڈاکٹرز پارکنسنز بیماری میں مبتلا مریضوں کے علاج میں مدد کر سکیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تحقیق پر مزید تجزیے کرنے کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں ڈیمینشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق ڈاکٹر ٹم بارٹیلز نے کہا کہ یہ تحقیق اس بات کو تجویز کرتی ہے کہ آنتوں کے مسائل پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص کے لیے ایک اہم عضو ہو سکتا ہے۔
بیماری کے ابتدائی مرحلے میں پارکنسنز کی تشخیص کرنا بہت اہم ہوگا، کیونکہ اس سے ماہرین آنتوں کی صحت اور پارکنسنز کی بیماری کے درمیان تعلق کو سمجھ سکتے ہیں اور مستقبل میں پارکنسنز کی تشخیص اور اس کے علاج کے طریقوں میں مدد مل سکتی ہے۔
پارکنسز بیماری کیا ہے؟
پارکنسنز میں مبتلا افراد کے دماغ میں ڈوپامائن نامی خاص کیمیکل کی مقدار کم ہوتی ہے کیونکہ اسے بنانے والے اعصابی خلیات میں سے کچھ کو نقصان پہنچا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے مریضوں کے دماغ کے ایسے خلیات جو ڈوپامائن بنانے کا کام کرتے ہیں، وہ ٹھیک کام نہیں کررہے ہوتے۔
اس بیماری میں مبتلا افراد کو مختلف علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں جسمانی جھٹکے، سست حرکت، اور پٹھوں میں سختی اور کھچاؤ شامل ہیں۔
اگرچہ ابھی پارکنسنز کی بیماری کا کوئی علاج سامنے نہیں آیا ہے، تاہم اس بیماری کی علامات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
اس سے پہلے کہ دماغ اور اعصابی نظام کے مسائل شدت اختیار کر جائیں جو بیماری کے ابتدائی مرحلے کا پتا لگانا بہت ضروری ہے۔