چندریان 3 اور دیدۂ عبرت نگاہ
پاکستان اور بھارت کے مابین روایتی چپقلش اپنی جگہ، لیکن چندریان سوم (چندریان 3) مشن کی کامیابی پر بھارت کو مبارک باد تو بنتی ہے۔ امید ہے کہ اس ’نیوٹرل اظہارِ خیال‘ پر مجھ ناچیز پر کوئی ’لیبل‘ تو نہیں لگے گا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق، چندریان 3 مشن کا لینڈر ’وکرم‘ چاند کی سطح پر باحفاظت اترنے میں کامیاب ہوچکا ہے اور اس میں رکھی گئی چاند گاڑی یعنی ’پرگیان روور‘ بھی چاند کی سطح پر اتاری جاچکی ہے۔
وکرم لینڈر جس جگہ اترا ہے، وہ چاند کے جنوبی قطب سے قریب ہے۔ اس سے پہلے تک انسان کی بنائی ہوئی کوئی چیز یہاں نہیں اتری تھی۔ گویا اس کامیابی کے ساتھ ہی بھارت وہ پہلا ملک بھی بن گیا ہے جس نے چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی سے اپنا لینڈر اتارا ہے۔
چاند کا تاریک رُخ
چاند کا جنوبی قطب اور اس کے آس پاس کا علاقہ بہت خاص ہے۔ چاند کا یہ حصہ زمین سے دکھائی نہیں دیتا اور سورج کی روشنی بھی یہاں بہت کم پہنچ پاتی ہے۔ اسی لیے اسے ’چاند کا تاریک رُخ‘ (ڈارک سائیڈ آف دی مون) بھی کہا جاتا ہے۔
ماضی میں چاند کے اس علاقے میں پانی کی وافر مقدار کے اشارے مل چکے ہیں جو (ممکنہ طور پر) برف کی شکل میں، زیرِ سطح موجود ہے۔ اگر کسی طرح یہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کس قدر پانی ہے، تو شاید مستقبل بعید میں چاند پر انسانی بستیاں بسانے میں بھی خاصی مدد مل جائے گی۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمیں فراخ دلی سے تسلیم کر لینا چاہیے کہ بھارت نے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں واقعتاً ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس پورے قصے میں وکرم لینڈر کا چاند پر اُترنا تو صرف ایک پہلو ہے، ورنہ چندریان 3 مشن کی کامیابی میں خلائی راکٹ (اسپیس لانچ وہیکل) بنانے سے لے کر پیچیدہ ٹیکنالوجی اور مشن کنٹرول تک، ایسا بہت کچھ ہے کہ جس کے بارے میں عام لوگ نہیں جانتے (اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتے)۔
تکنیکی تفصیل میں جائے بغیر، صرف اتنا سمجھ لیجیے چندریان مشن اپنے آپ میں سیکڑوں نہیں تو درجنوں ٹیکنالوجیز کا مجموعہ ہے؛ جن میں ہر ٹیکنالوجی، دوسری کے ساتھ بخوبی مربوط (integrated) ہے۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
آج لگ بھگ ہر پاکستانی ایک سوال ضرور کر رہا ہے کہ بھارت چاند پر پہنچ گیا، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارا خلائی پروگرام آگے کیوں نہیں بڑھ پایا؟ اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو پچھلے چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے اور جسے یہاں دہرانا ہمارے لیے ’مناسب‘ نہیں ہے۔
تاہم ایک جواب اور ہے جسے پڑھنے، برداشت کرنے اور ہضم کرنے کے لیے اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ساتھ دیدۂ عبرت نگاہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ آنے والے برسوں میں ہم سے وہ غلطیاں نہ ہوں جو ہم آج تک کرتے آئے ہیں۔
تاریخ کے صفحات سے کچھ مناظر آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ اب یہ آپ پر ہے کہ ان واقعات کو پڑھ کر غصے کے مارے لال پیلے ہوتے ہیں، عبرت حاصل کرتے ہیں، یا پھر ’سانوں کی‘ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں۔
باپ کے خطوط، بیٹی کے نام
1929ء میں ایک کتاب شائع ہوتی ہے جس کا عنوان ’لیٹرز فرام اے فادر ٹو ہز ڈاٹر‘ (باپ کے خطوط، بیٹی کے نام) ہے۔ یہ اُن 30 خطوط کا مجموعہ ہے جو کانگریسی رہنما جواہر لعل نہرو نے 1928ء میں اپنی دس سالہ بیٹی ’اندرا‘ کو لکھے تھے تاکہ اسے جدید زمانے کا علم و شعور دے سکیں۔ خطوط کا یہ مجموعہ (جو آج بھی خاصا مقبول ہے) سائنس سے لے کر انسانی تاریخ تک درجنوں موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ کانگریسی قیادت اپنی نئی نسل کو فکری و علمی طور پر خوب سے خوب تر بنانے کے معاملے میں کس قدر سنجیدہ تھی۔
مجھے ایم آئی ٹی دے دو!
برصغیر میں پاکستان اور بھارت کے نام سے دو آزاد ملک وجود میں آچکے ہیں۔ امریکا نے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو دورے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم دورۂ امریکا پر پہنچتے ہیں۔ امریکی حکام انہیں گھماتے ہیں، پھراتے ہیں، اپنے یہاں کی چیزیں دکھاتے ہیں اور آخر میں پوچھتے ہیں: آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ جواب میں پاکستانی وزیرِ اعظم کچھ غذائی اور دفاعی امداد کی فرمائش کرتے ہیں۔ فرمائش پوری ہوتی ہے۔ پاکستان کو امریکی طیارے ملتے ہیں اور لاک ہیڈ مارٹن والے انجینئرنگ سے متعلق اپنی کچھ تنصیبات بھی پاکستان میں لگاتے ہیں۔ غذائی تعاون کے تحت جب گندم سے بھرا ہوا پہلا امریکی جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتا ہے تو اونٹوں کے گلوں میں خصوصی تختیاں لٹکائی جاتی ہیں جن پر ’تھینک یو یو ایس اے‘ لکھا ہوتا ہے۔
اسی طرح پہلے بھارتی وزیرِ اعظم بھی امریکی دورے پر جاتے ہیں۔ انہیں بھی گھمایا پھرایا جاتا ہے، امریکا میں بننے والی چیزیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے وغیرہ دکھائے جاتے ہیں۔ امریکی حکام ان سے بھی وہی سوال کرتے ہیں: آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر بھارتی وزیرِ اعظم (جواہر لعل نہرو) کا جواب آج تک مشہور ہے کہ مجھے ایم آئی ٹی دے دو! (میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، المعروف ایم آئی ٹی، امریکا کا مشہور اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارہ ہے)۔ نتیجتاً امریکی تعاون سے ہندوستان میں ایم آئی ٹی کی طرز پر اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی ادارے بنائے جاتے ہیں۔ (ان ہی میں سے ایک ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ (آئی آئی ٹی) ہے جو آج اپنے تعلیمی معیار کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہو چکا ہے)۔
ہمارا ماڈل راکٹ اور پی آئی اے سیارگاہ
یہ 1984ء ہے کراچی میں عالمی صنعتی نمائش لگی ہوئی ہے۔ (یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کل کراچی ایکسپو سینٹر قائم ہے) نمائش میں پاکستانی خلائی تحقیقی ادارے ’سُپارکو‘ (اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیرک ریسرچ کمیشن) کا اسٹال بھی ہے جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک ماڈل راکٹ بھی رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ لگی تختی پر (انگریزی میں) ’اسپیس لانچ وہیکل (ایس ایل وی)‘ لکھا ہے۔
ہم جیسے اردو میڈیم، سرکاری اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے لیے یہ نام خاصا اجنبی اور عجیب و غریب ہے۔ ویسے بھی زندگی میں پہلی بار کسی راکٹ کا ماڈل اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سُپارکو کے تحت مصنوعی سیاروں کو خلا میں بھیجنے کے لیے ’خلائی راکٹ‘ (ایس ایل وی) کے منصوبے پر بھی کام ہورہا ہے۔ یہ منصوبہ ایک ماڈل سے آگے نہیں بڑھ پایا۔۔۔ اور بالآخر اپنی موت آپ مرگیا۔
اسی نمائش کے موقع پر ’پی آئی اے سیارگاہ‘ (پی آئی اے پلینٹیریم) کا افتتاح بھی بہت دھوم دھام سے کیا گیا تھا۔ آج بھی جب آپ یونیورسٹی روڈ پر ایکسپو سینٹر کے سامنے سے گزرتے ہیں تو برابر میں پلینٹیریم کا سفید لیکن گرد آلود گنبد خاموشی سے نوحہ خواں دکھائی دیتا ہے۔ یہ بچوں اور نوجوانوں میں فلکیات (ایسٹرونومی) اور خلائی علوم (اسپیس سائنسز) کا شوق پیدا کرنے کے لیے بہت اچھا قدم تھا۔ افسوس کہ 1984ء میں جو پروگرام یہاں دکھائے جاتے تھے۔ 30، 35 سال بعد تک وہی پروگرام چلائے جاتے رہے۔ اب تو شاید وہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ پلینٹیریم کے احاطے میں واقع باغ کو شادی ہال میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ باقی کی ان کہی کہانی آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔
ناسا میں بھارتی سائنسدان
1991ء کا سال شروع ہوچکا ہے۔ سوویت یونین کا اختتام قریب ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ (اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ) کے سرکاری نیوز لیٹر میں ایک خصوصی مضمون شائع ہوتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خلائی تحقیقی ادارے ’نیشنل ایئروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن‘ (ناسا) میں لگ بھگ 35 فیصد سائنسدان اور انجینئرز بھارتی نژاد ہیں۔ (یہ نیوز لیٹر پاکستان کے تمام اخبارات و جرائد کو بھیجا جاتا تھا۔ راقم ان دنوں ماہنامہ سائنس میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اس نے یہ مضمون خود پڑھا تھا)۔
سرد جنگ کے دوران بھارت، سوویت یونین کا اتحادی اور امریکا کا مخالف رہا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود، بھارتی سائنسدانوں اور انجینئروں کی اتنی بڑی تعداد ناسا میں کیسے بھرتی ہوئی؟ جو فوائد بھارت نے امریکا مخالف ہوتے ہوئے اٹھائے، پاکستان وہ فوائد امریکی اتحادی ہونے پر بھی کیوں حاصل نہ کرسکا؟
آرتی پربھارکر
1993ء کا سال آن پہنچا ہے۔ امریکی ادارے ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی‘ (نِسٹ) میں ایک نئی ڈائریکٹر نے عہدہ سنبھالا ہے۔ یہ بھارتی نژاد آرتی پربھارکر ہیں جن کی عمر اس وقت صرف 34 سال ہے۔ یہ نِسٹ کی سب سے کم عمر اور پہلی خاتون ڈائریکٹر بھی ہیں۔
اب ہم ’فاسٹ فارورڈ‘ کرکے سیدھے 2023ء میں پہنچتے ہیں، آج آرتی پربھارکر 64 سال کی ہوچکی ہیں۔ وہ اکتوبر 2022ء سے امریکی صدر جو بائیڈن کی مشیر برائے سائنس ہونے کے علاوہ، وائٹ ہاؤس میں ’آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی‘ (او ایس ٹی پی) کی ڈائریکٹر بھی بن چکی ہیں۔ ویسے آرتی پربھارکر 2012ء سے 2017ء تک امریکا کی ’ڈیفنس ایڈوانسڈ پروجیکٹس ایجنسی‘ (ڈارپا) کی ڈائریکٹر بھی رہی ہیں۔
ونڈوز 95
1990ء میں مائیکروسافٹ نے بھارت میں قدم رکھا اور حیدرآباد دکن میں ’مائیکروسافٹ انڈیا ڈیولپمنٹ سینٹر‘ (ایم ایس آئی ڈی سی) قائم کیا۔ چند سال کے اندر اندر یہاں کام بہت بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ مائیکروسافٹ ونڈوز 95 آپریٹنگ سسٹم کی پروگرامنگ کا بیشتر حصہ بھی یہیں انجام دیا جاتا ہے۔ گرافیکل یوزر انٹرفیس (جی یو آئی) والا یہ آپریٹنگ سسٹم دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا میں مقبول ہوجاتا ہے اور بھارتی پروگرامرز بھی عالمی سطح پر اپنی مہارت کا سکّہ منوا لیتے ہیں۔ (اس دوران یہ بحث بھی شروع ہوجاتی ہے کہ حیدرآباد دکن اور بنگلور میں سے کس شہر کو ’بھارتی سلیکون ویلی‘ قرار دیا جائے)۔
ایم ایس آئی ڈی سی اس وقت امریکا سے باہر مائیکرو سافٹ کا سب سے بڑا سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ سینٹر بھی ہے جہاں 18 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں اور جس کی شاخیں 11 بھارتی شہروں میں موجود ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ 2022ء میں بھارت نے صرف سافٹ ویئر ایکسپورٹس کی مد میں 178 ارب ڈالر کمائے تھے۔
تحقیق کے لیے بارہ آنے!
اتفاق کہیے یا قسمت کی ستم ظریفی، کہ 1995ء ہی میں حکومتِ پاکستان کو ورلڈ بینک کی جانب سے ایک عدد ’حکم نامہ‘ (aide memoire) موصول ہوتا ہے جس میں مختلف اصلاحات ’تجویز‘ کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیق کے سب سے بڑے ادارے ’پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ‘ (پی سی ایس آئی آر) کو چھوٹے چھوٹے مختلف اداروں میں توڑ دیا جائے کیونکہ اپنی موجودہ حیثیت میں یہاں تحقیق (ریسرچ) کا کوئی کام نہیں ہورہا اور یہ قومی خزانے پر بوجھ بن چکا ہے۔
پاکستان میں اس پر کچھ ہلچل ہوئی۔ پاکستان ایسوسی ایشن فار دی سائنٹسٹس اینڈ سائنٹفک پروفیشنز (پی اے ایس ایس پی) کے تحت ایک سیمینار بھی ہوا (جس میں سابق وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، جناب جاوید جبار کو بطورِ خاص مدعو کیا گیا تھا)۔ مقررین نے پی سی ایس آئی آر کی تاریخ دوہرائی، کارنامے گنوائے اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اس سمپوزیم میں (غالباً) ڈاکٹر مرزا ارشد علی بیگ نے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ پی سی ایس آئی آر کے سالانہ بجٹ میں سے ملازمین کی تنخواہیں اور دوسرے تمام اخراجات نکالنے کے بعد، تحقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ) کے لیے صرف بارہ آنے (75 پیسے) یومیہ فی سائنسدان بچتے ہیں۔ سمپوزیم کے بعد اخبارات میں بھی اس پر کچھ مضامین شائع ہوئے۔ (اس بارے میں راقم کی ایک تحریر، روزنامہ جنگ کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی۔)
اور اس کے بعد۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ پی سی ایس آئی آر آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے۔ پاکستان کے سائنسی منظرنامے پر اس ادارے کا ہونا یا نہ ہونا، دونوں ہی برابر ہیں۔ یہ پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کا سفید ہاتھی بن چکا ہے، بلکہ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اب اس ادارے کو واقعی بند کر دینا چاہیے کیونکہ ’مُردے کو بھی جلدی دفنا دینا چاہیے، اگر وہ زیادہ دیر رکھا رہے تو بدبو دینے لگتا ہے‘۔
انٹرنیٹ کا سیلاب
1996ء سے پاکستان میں انٹرنیٹ کا آغاز ہوچکا ہے۔ ابتداء میں صرف ’پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن‘ (پی ٹی سی ایل) ہی سے انٹرنیٹ کنکشن مل سکتا ہے۔ کراچی میں ’گیٹ وے ایکسچینج‘ (نزد ریوالی) سے انٹرنیٹ کنکشن کے فارمز دستیاب ہیں۔ ہر فارم چار صفحات پر مشتمل ہے۔ حکومت کو انٹرنیٹ صارفین سے نہ جانے کون کون سی معلومات درکار ہیں۔ اس پر یہ ہدایت بھی ہے کہ فارم کی 4 کاپیاں بنوائی جائیں اور ضروری دستاویزات منسلک کرنے کے بعد وہیں جمع کروائی جائیں کہ جہاں سے فارم لیا گیا تھا۔
وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک کاپی تو پی ٹی سی ایل والوں کے پاس رہے گی۔ باقی کی 3 کاپیوں میں سے ایک کسی ’’حساس وفاقی ادارے‘‘ کو دی جائے گی جو یہ جانچ پڑتال کرے گا کہ درخواست دہندہ کہیں کوئی غدار یا دہشت گرد تو نہیں۔ دوسری کاپی وزارتِ داخلہ کے پاس محفوظ رہے گی اور تیسری کاپی، درخواست دہندہ کے قریبی تھانے کو بھیجی جائے گی جو اس فرد کے ’چال چلن‘ کی تصدیق کرے گا۔ اگر ’سب کچھ ٹھیک‘ ہوا تو 4 سے 6 مہینے میں انٹرنیٹ کنکشن دے دیا جائے گا۔
انٹرنیٹ کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی اور لوگوں کی بڑی تعداد انٹرنیٹ تک رسائی کی خواہش مند تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کچھ نجی اداروں نے بھی اس میدان میں سرمایہ کاری کا سوچا اور حکومت سے بات کی۔ بہت آناکانی کے بعد، بالآخر حکومتِ پاکستان نے نجی اداروں (پرائیویٹ آئی ایس پیز) کو لائسنس دینے کا فیصلہ کیا، لیکن بھاری زرِ ضمانت کے علاوہ ٹیکس بھی لگا دیے۔ دراصل پاکستانی بیوروکریسی اس جدید ٹیکنالوجی سے کوئی فائدہ اٹھانے کی بالکل بھی خواہش مند نہیں تھی۔ اس کے برعکس، وہ اپنے تئیں انٹرنیٹ کے انقلاب پر بند باندھنا چاہتے تھے۔ لیکن انٹرنیٹ تو ایک سیلاب تھا جو پابندیوں کے سارے بند توڑتا ہوا، آگے ہی بڑھتا گیا۔
سرکاری سطح پر مناسب پالیسی نہ ہونے کے باعث ہم ٹیکنالوجی کے اس انقلاب سے بھی مستفید نہ ہوسکے، بلکہ ہم نے زیادہ نقصان ہی اٹھایا۔
ادھورا ’2010ء پروگرام‘
1998ء میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں ’پاکستان 2010ء‘ کے عنوان سے ایک جامع قومی منصوبے کا آغاز ہوا جس کا مقصد مختلف شعبوں میں اصلاحات کرنا تھا۔ کم از کم میرے مشاہدے میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی سرکاری منصوبے میں ’دشمن کو جواب دینے‘ کے بجائے ’اپنے لیے خود کچھ کرنے‘ کی خواہش نظر آئی۔ اس منصوبے میں گورننس (سرکاری اداروں کے انتظام اور طریقہ کار)، اعلیٰ تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت کو خصوصی اہمیت دی گئی تھی۔ طے یہ ہوا تھا کہ پہلے مسائل کو بخوبی سمجھا جائے اور ان کے ممکنہ حل تلاش کیے جائیں، تاکہ اگلے مرحلے میں پالیسی سازی اور دیگر اقدامات کے ذریعے درست طور پر اصلاحات کی جاسکیں۔
سچ تو یہ ہے کہ خود مسلم لیگ (ن) کے اپنے بیشتر وزرا اس پروگرام سے ناخوش تھے اور اپنی نجی محفلوں میں اسے وسائل کی بربادی قرار دیتے تھے، لیکن میاں نواز شریف سے احسن اقبال صاحب کی قربت کے باعث کھل کر کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ’2010ء پروگرام‘ کی کانفرنسوں، سیمیناروں اور سمپوزیم وغیرہ میں مدعو کیے جانے والے اکثر وزرا فی الفور معذرت کر لیا کرتے تھے۔
ابھی اس پروگرام نے اُڑان بھی نہیں بھری تھی کہ 12 اکتوبر 1999ء کے روز میاں نواز شریف کی حکومت چلی گئی، جنرل پرویز مشرف (مرحوم) نے مارشل لا لگا دیا اور یہ پروگرام بھی ختم ہوگیا۔ ان دنوں اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں شُنید تھی کہ جنرل مشرف اس پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے جناب احسن اقبال کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت بھی دی گئی۔ لیکن انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وابستگی کو ترجیح دی۔ البتہ، مشرف دورِ حکومت میں 2010ء پروگرام کے خد و خال سے بڑی حد تک استفادہ ضرور کیا گیا تھا۔
بایوٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی اور جمہوریت
جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمٰن کو سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر بنایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی سائنسدان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ ’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘ (یو جی سی) کو تبدیل کرکے ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ (ایچ ای سی) بنا دیا گیا اور ڈاکٹر عطا الرحمٰن اس کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے۔ یہی وہ دور تھا کہ جب قومی سطح کے دو نئے کمیشن قائم کیے گئے پہلا نیشنل کمیشن آن بایوٹیکنالوجی (2002ء) اور دوسرا نیشنل کمیشن آن نینو سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (2005ء)۔ اوّل الذکر کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر انور نسیم تھے جبکہ دوسرے کمیشن کی سربراہی ڈاکٹر این ایم بٹ کو سونپی گئی۔
پاکستان میں بایوٹیکنالوجی کے مختلف ادارے بہت پہلے ہی سے کام کر رہے تھے۔ بایوٹیکنالوجی کمیشن نے ان اداروں میں جاری منصوبوں کو مربوط اور نتیجہ خیز بنانے پر خصوصی توجہ دی، جس کا بہت فائدہ بھی ہوا۔ دوسری جانب نینوٹیکنالوجی ہمارے لیے ایک نئی چیز تھی جس کے لیے مناسب افرادی قوت تیار کرنا ضروری تھا۔ غرض کہ یہ دونوں کمیشن اپنی اپنی جگہ کام کرنے لگے اور بہتری کی امید نظر آنے لگی۔
لیکن 2008ء میں انتخابات کے بعد ’جمہوریت آگئی‘ اور ہر وہ چیز ناپسندیدہ قرار پائی جو ایک ڈکٹیٹر نے شروع کی تھی۔ بات صرف بلدیاتی نظام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تباہی پر نہیں رکی بلکہ 2009ء میں بایوٹیکنالوجی کمیشن اور نینو ٹیکنالوجی کمیشن بھی بند کروا دیے گئے۔۔۔ خس کم، جہاں پاک!
بوب بالارام
19 اپریل 2021ء کے روز مریخ کی فضاؤں میں ناسا کے تیار کردہ ہیلی کاپٹر ’انجینوئٹی‘ نے پہلی پرواز کی۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر انسان کی ایجاد کردہ اوّلین ’اُڑن مشین‘ بھی تھی۔ اس منصوبے کے سربراہ اور چیف انجینئر ’بوب بالارام‘ تھے جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، مدراس سے پڑھے ہوئے ہیں۔
امریکا پہنچ کر انہوں نے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کی، پی ایچ ڈی کیا اور ناسا میں شمولیت اختیار کی۔ جلد ہی انہوں نے اپنی قابلیت منوائی اور ترقی کی منزلیں طے کرنے لگے۔ انجینوئٹی ہیلی کاپٹر بھی ان ہی کا ڈیزائن کیا ہوا ہے جس پر انہوں نے 2014ء میں دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر، کام شروع کیا تھا۔ روبوٹکس اور خلائی ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ نہ صرف امریکا، بلکہ دنیا بھر میں معتبر سمجھے جاتے ہیں۔
ہم کیا کریں؟
اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنی ترجیحات درست کرنی چاہئیں۔ مطلب یہ کہ ہم خود کو انفرادی اور اجتماعی، ہر لحاظ سے درست کریں۔ نظامِ تعلیم سے لے کر معاشرت اور معیشت تک، ایک ایک چیز کو درست کریں۔
ہم اپنے معاملات کو اس لیے درست کریں کیونکہ ہمیں اپنے ملک کو خوب سے خوب تر بنانا ہے۔ اس لیے نہیں کہ کسی دشمن کو جواب دینا ہے۔ جس جگہ واقعی جواب دینے کی ضرورت ہے، وہاں ڈٹ کر جواب دیا جائے۔
اگر سیاست دانوں کو اپنی سوچ درست کرنی ہے تو بیوروکریسی کو بھی ’چبڑ چبڑ انگریزی‘ والے مزاج سے چھٹکارا پانا ہے۔ جہاں تک ایک عام پاکستانی کا تعلق ہے تو اسے بھی صحیح معنوں میں انسان بننے اور متوازن رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
بھارت چاند پر پہنچ گیا اور ہم اب تک وہیں کھڑے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ویسے ہی رہنا چاہتے ہیں جیسے ہم ہیں یعنی کہ محنت بھی نہ کرنی پڑے اور اعلیٰ ترین کامیابی بھی مل جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم تو آپس میں دست و گریباں رہ گئے، غداری اور حبّ الوطنی کے سرٹیفکیٹ ہی بانٹتے رہ گئے لیکن ہمارا پڑوسی ملک بہت آگے نکل گیا۔ دیکھا جائے تو آج اقوامِ عالم کی دوڑ میں ہم کہیں بھی نہیں۔۔۔ شاید ہم کسی کونے میں بیٹھے اپنے ’شاندار ماضی‘ کا نشہ کر رہے ہیں۔
حالات سدھر سکتے ہیں، ہم بہتر کیا بہترین بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر ہم میں بگاڑ بہت زیادہ ہوچکا ہے جسے سدھارنے کے لیے ہمیں خلوصِ دل سے بہت محنت کرنی ہوگی، جان توڑ محنت۔ لیکن اپنی ترجیحات کی درستی شاید اب بھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہوسکی ہے۔
علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔