حکومت پنجاب نے جڑانوالہ واقعے کی تحقیقات کیلئے 10 جے آئی ٹیز تشکیل دے دیں
پنجاب کی نگران حکومت نے گزشتہ ہفتے توہین مذہب کے مبینہ واقعے کے بعد فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں متعدد گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے 10 مختلف مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں(جے آئی ٹیز) تشکیل دے دی ہے۔
16 اگست کو مشتعل پرتشدد ہجوم نے تقریباً دو درجن گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کے بعد انہیں نذر آتش کرنے کے بعد عیسائی برادری کی رہائش گاہوں اور جڑانوالہ میں مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پر بھی حملہ کیا تھا۔
فیصل آباد کی ضلعی انتظامیہ کے تخمینے کے مطابق ہجوم کی طرف سے کم از کم 22 گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کے نتیجے میں 2 کروڑ 91 لاکھ روپے اور جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنانے والے 91 گھروں کو 3 کروڑ 85 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا تھا۔
پولیس اور مقامی ذرائع کے مطابق تشدد کا آغاز اس وقت ہوا جب چند مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ جڑانوالہ کے سینما چوک میں ایک گھر کے قریب سے قرآن پاک کے کئی صفحات ملے ہیں جن کی بے حرمتی کی گئی، مذکورہ گھر کے قریب دو مسیحی بھائی رہائش پذیر تھے۔
اس واقعے کے ایک دن بعد پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے کہا تھا کہ اس مقدمے کے دونوں مرکزی ملزمان کو گرفتار کر کے محمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔
اس کے بعد مزید کئی گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں اس وقت پیش رفت ہوئی جب حکومت پنجاب نے فیصل آباد کے مختلف تھانوں میں اس معاملے سے متعلق درج مقدمات کی تحقیقات کے لیے 10 مختلف جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیموں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔
تمام نوٹیفکیشنز میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 19(1) کے تحت حاصل اختیارات کے استعمال کے لیے تشکیل دی جا رہی ہیں۔
آئی جی پنجاب نے پادری کی گرفتاری کی تردید کر دی
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے آج مذکورہ معاملے کے سلسلے میں ایک پادری کی گرفتاری کی خبروں کی تردید کی۔
آج ایک انگریزی نیوز ویب سائٹ پر پادری کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی تھی لیکن پنجاب پولیس کے سربراہ نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں امجد عالم نامی پادری کو گرفتار کیا گیا تھا جس نے مبینہ گرفتاری سے قبل ایک ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔
رپورٹ میں ویڈیو کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وہ 16 اگست کو جڑانوالہ میں نہیں بلکہ پشاور میں تھے لیکن اس کے باوجود کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکار انہیں گرفتار کرنے پہنچے ہیں۔