• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں، انتخابات کی تاریخ ہم دیں گے، چیف الیکشن کمشنر کا صدر کو جواب

شائع August 24, 2023
سکندر سلطان راجا نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی — فائل فوٹو/  ڈان نیوز
سکندر سلطان راجا نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی — فائل فوٹو/ ڈان نیوز

چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا نے صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے عام انتخابات کے لیے ’مناسب تاریخ طے کرنے‘ کے پیش نظر ملاقات کے لیے لکھے گئے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کے بعد عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار کمیشن کا ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے الیکشن کمشنر کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملاقات کی دعوت دی تھی۔

اپنے خط میں صدر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے قبل از وقت تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کی مقررہ مدت میں انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔

صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ ’صدر کی جانب سے وزیراعظم کے مشورے پر 9 اگست کو قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تھا، جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت صدر اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ سے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کریں۔

انہوں نے کہا تھا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق 5 کے تحت صدر مملکت تاریخ دینے کے پابند ہیں جو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کے لیے 90 روز سے زیادہ نہ ہو۔

صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ جب صدر، قومی اسمبلی تحلیل کرتا ہے اور اس کا شق ون کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے تاریخ دے گا جو اسمبلی کی تحلیل کے دن کے بعد 90 روز سے طویل نہ ہو۔

خط میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 یا 224 اے کے مطابق نگران کابینہ تشکیل دی جائے گی۔

خیال رہے کہ 20 فروری کو صدر عارف علوی نے یکطرفہ طور پر 9 اپریل کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے حکم پر اپنی پانچ سالہ مدت ختم ہونے سے قبل دونوں اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تھا۔

صدر کا یکطرفہ اعلان دونوں اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں پر مشاورت کے لیے ان کی دعوت کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نظرانداز کرنے کے بعد سامنے آیا تھا۔

تاہم اب صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ انتخابی قوانین میں حالیہ ترامیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو صدر کے مشورے کے بغیر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

آج صدر کو لکھے گئے خط میں سکندر سلطان راجا نے کہا کہ یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ جہاں صدر اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے، تو انہیں عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنی ہوتی ہے، تاہم اسمبلی وزیر اعظم کے مشورے پر یا آئین کے آرٹیکل 58 (1) میں فراہم کردہ وقت کے اضافے سے تحلیل کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار خصوصی طور پر اس کے پاس ہے۔

سکندر سلطان راجا کے خط میں کہا گیا ہے کہ کمیشن انتہائی احترام کے ساتھ یقین رکھتا ہے کہ آپ (صدر) کے خط میں ذکر کردہ آئین کی دفعات پر انحصار اس تناظر میں لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کرنا انتخابات کے انعقاد کی جانب ’بنیادی قانونی اقدامات‘ میں سے ایک ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے دینے کی دعوت بھی دی ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا کمیشن کے اعلان کردہ مؤقف کے باوجود، پورے احترام کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کمیشن صدر کے عہدے کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مناسب وقت پر قومی مسائل پر آپ سے ملاقات اور رہنمائی حاصل کرنا ہمیشہ ایک اعزاز رہا ہے۔

خط میں مزید مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مذکورہ بالا نکات کو مدنظر میں رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بعد ازاں ایوان صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایوان صدر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خط پر وزارت قانون و انصاف کی رائے مانگ لی ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ایوان صدر نے انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے مؤقف پر رائے مانگی ہے‘ کیونکہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا ان کا اختیار ہے۔

ایوان صدر نے مزید کہا کہ ’صدرمملکت کے کل کے خط کے جواب میں الیکشن کمیشن کے مؤقف پر رائےمانگی گئی ہے اور اسی پر ایوان صدر کی جانب سے خط وزارت قانون و انصاف کے سیکریٹری کے نام لکھ دیا گیا ہے‘۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابات کے حوالے سے مشاورت کا عمل بھی شروع کردیا ہے اور آج پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جمعیت علمائے اسلام کے وفود نے ملاقات کی اور اپنے تحفظات سے کمیشن کو آگاہ کیا۔

الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، عمیر نیازی اور علی محمد خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جبکہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے مولانا عبدالغفور حیدری، جلال الدین، مولانا درویش، کامران مرتضیٰ اور دیگر نے شرکت کی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے دونوں جماعتوں کے نمائندگان کو یقین دلایا کہ الیکشن کمیشن کی یہ کوشش ہے کہ الیکشن کا انعقاد جلد ازجلد ہو اور انتخابات میں تمام جماعتوں کو یکساں مواقع کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کرے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ انتخابات میں شفافیت یقینی بنائی جائے گی اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا یہ عمل آئندہ بھی جاری رہے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024