• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

کیا ہوگا اگر ہماری آن لائن اور آف لائن دنیائیں ایک ہوجائیں؟

شائع August 22, 2023
مصنوعی ذہانت کی مثبت صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ہمیں بس اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرروت ہے
مصنوعی ذہانت کی مثبت صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ہمیں بس اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرروت ہے

تصور کریں کہ 2 اسکول ہیں، ایک اسکول الف ہے جہاں کا ماحول جامع اور محترم ہے اور طلبہ وہاں خود کو محفوظ اور قابلِ قدر محسوس کرتے ہیں جبکہ دوسرا اسکول ب ہے جہاں بلنگ، ہراسانی اور تفریق عام ہے۔ یہ دونوں ہی اسکول آن لائن تعلیمی نظام اور سائبر انٹریریکشن متعارف کرواتے ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے کے ساتھ پروجیکٹس میں اشتراک کریں گے جس سے مختلف مضامین کے حوالے سے آگہی پیدا ہونے کے بھی امکانات ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ڈیجیٹل تعلقات بھی قائم کرلیتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ہم توقع کریں گے کہ آف لائن ماحول ہمارے آن لائن ماحول میں اثرانداز ہوگا۔ یوں اسکول الف کا ماحول تو دوستانہ اور پیداواری ہوجائے گا لیکن اسکول ب میں بلنگ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ وہ طلبہ جو کلاس روم میں ہراسانی کا سامنا کررہے تھے، اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ یوں آن لائن اور آف لائن کے تصورات ایک دوسرے میں الجھ جائیں گے۔

بہت سے لوگوں کے نزدیک جدید ٹیکنالوجیز خاص طور پر مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا بنائیں جہاں مساوی مواقع، امن اور پائیدار ترقی عام ہو۔ اس امید کی بنیاد ٹیکنالوجیز کی کمپیوٹیشنل طاقت، مسلسل بڑھتا ہوا ڈیٹا اور خود سیکھنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر تعلیم کے شعبے میں یہ ٹیکنالوجیز طلبہ کو انتہائی ذاتی نوعیت کے اور حوصلہ افزا اسباق اور جائزے فراہم کررہی ہیں۔

لیکن امکانات ہمیشہ حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔ زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں ہے کہ جب زیادہ جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا بنانے کے لیے سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنے کے حوالے سے جوش پایا جاتا تھا۔ اب ایسے دعوے بہت کم کیے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ جیسے اوپر سوچے گئے تجربے میں دکھایا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا اثر نمایاں طور پر آف لائن دنیا کے مادی، سماجی اور سیاسی حالات پر منحصر ہوتا ہے جس میں یہ کام کرتی ہے۔ نفسیاتی جوڑ توڑ، ایذا رسانی، نگرانی، کمرشلائزیشن، پروپیگنڈا، دنیا میں جو کچھ ہورہا تھا سب سوشل میڈیا کا بھی حصہ بن گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجیز کی صلاحیتوں کے حصول میں کون سے مادی اور سیاسی آف لائن شرائط رکاوٹ بن سکتی ہیں؟ شاید ان میں سے اہم دولت اور آمدنی میں عدم توازن ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی حالیہ رپورٹ اسے اس دور کے چیلنج کے طور پر بیان کرتی ہے۔ گزشتہ سال 2022ء میں 1.2 فیصد امیر ترین افراد کل عالمی دولت کے 47.8 فیصد پر قابض تھے، جبکہ 53 فیصد نچلے طبقے کو صرف 1.1 فیصد دولت تک رسائی حاصل تھی۔

اقتصادی عدم مساوات کو سماجی، تعلیمی اور سیاسی عدم مساوات کے طور پر سامنے آتا۔ نتیجتاً جہاں کچھ بچے بہترین اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھیں گے وہاں کچھ کو بنیادی تعلیم تک بھی رسائی حاصل نہیں ہوگی۔ جب تک ٹیکنالوجی تک رسائی میں فرق کو ختم کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں تب تک سب کو مساوی مواقع فراہم کرنے کے خواب کی تعبیر ممکن ہونے کا امکان بھی کم ہے اور اس دوران تفاوت اور اس کے نتائج میں بھی اضافہ ہوگا۔

جدید ٹیکنالوجی کے حامیوں میں بڑی کمرشل کمپنیاں اور سرکاری سیکیورٹی ایجنسیاں شامل ہیں۔ مصنوعی ذہانت کو فروغ دینے کا ان کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ منافع اور نگرانی بڑھایا جاسکے۔ اس نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی و اقتصادی ڈھانچے کو شوشنا زبوف ’سرمایہ داری کی نگرانی‘ کہتے ہیں۔

ممکنہ طور پر منافع کمانے کا یہ مقصد ملازمتوں کو متاثر کرے گا کیونکہ کمپنیاں جان بوجھ کر پالیسی بنا کر انسانوں کو مشینوں سے تبدیل کرنے کی کوشش کریں گی۔ نگرانی کا مقصد شہری آزادیوں کو مزید کم کر دے گا۔ پھر نظریات کو پھیلانے، پروپیگنڈا پھیلانے اور سائبر کرائمز کرنے کے لیے یکساں طور پر جدید ٹیکنالوجیز دستیاب ہیں۔

آن لائن اور آف لائن دونوں جہانوں کی اس الجھن کو دیکھتے ہوئے، انسانوں کی بڑی تعداد کے لیے جدید ٹیکنالوجیز کی مثبت صلاحیتوں کا ادراک کرنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہمیں ٹیکنالوجی کو ایک انسانی نمونے کے طور پر دیکھنا چاہیے جو تاریخی اور ثقافتی تناظر میں کام کرتا ہے۔ یہ معاشرے کی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں ایک منصفانہ اور ترقی پذیر آف لائن دنیا کی جانب بڑھنے کے لیے تعلیمی، قانونی، معاشی اور سماجی کوششیں کرنی چاہئیں۔

شاید جدید ٹیکنالوجیز کے لیے مساوی دنیا کی تشکیل میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم سنگین خطرہ ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جو لوگوں کی پرائیویسی اور آزادی کا تحفظ فراہم کرتی ہوں۔ اسی طرح منافع کمانے کے مقصد کے تحت فرمز افرادی قوت کو کم سے کم کرنے کی جانب مائل ہوں گی، اور یوں ہمیں اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ختم ہونے والی ہر نوکری کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی۔

تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو یہ ضروری ہوگا کہ ٹیکنالوجی میں جدت لاتے ہوئے، اسکولوں کو سماجی مہارتوں اور جذباتی تعاون کے ساتھ ایک اچھے طالب علم کی تربیت کے اپنے مقصد کو برقرار رکھنا چاہیے۔ چونکہ ٹیکنالوجی، سائنس اور ریاضی کے تصورات اکثر ایک ساتھ چلتے ہیں، اس لیے ان مضامین میں انسانیت اور فنون کی اہمیت کو بھلا دینا آسان ہے لیکن ایسا کرنا ہماری بھول ہوگی۔

خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے غیر تنقیدی جوش و خروش کے خطرات کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ میں اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ اچھا اقدام ہے اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

مصنوعی ذہانت کی مثبت صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہوشیاری، اخلاقی استدلال، جمہوری نگرانی اور کمزوروں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بغیر ہم نیک نیتی کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کی کوشش تو کرلیں گے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔


یہ مضمون 21 اگست 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فرید پنجوانی

لکھاری آغا خان یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کے فکیلٹی ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024