• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ترمیمی بلز کا تنازع، صدر مملکت نے اپنے سیکریٹری کی خدمات واپس کردیں

شائع August 21, 2023
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

ایوان صدر نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کے معاملے پر صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔

ایوان صدر کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’کل کے واضح بیان کے پیش نظر ایوان صدر نے صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ایوانِ صدر نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کے نام خط میں کہا ہے کہ صدر مملکت کے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں, لہٰذا ان کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کی جاتی ہیں‘۔

ایوان صدر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ ’پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی 22 گریڈ کی افسر حمیرا احمد کو صدر مملکت کی سیکریٹری تعینات کیا جائے‘۔

وقار احمد کی صدر عارف علوی کو خط، غلطی کی تردید

صدر مملکت کی جانب سے خدمات واپس کیے گئے سیکریٹری وقار احمد نے صدر عارف علوی کو خط میں کہا کہ صدر ان کی تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ پیغام میڈیا اور عوامی سطح پر آگیا ہے کہ صدر کے سیکریٹری بلز کے حوالے سے کسی قسم کی غلطی کے مرتکب ہوگئے ہیں۔

وقار احمد نے کہا کہ آرمی ایکٹ بل ایوان صدر کو 2 اگست کو موصول ہوا تھا اور سیکریٹری کے دفتر سے صدر کے دفتر کو 3 اگست کو نوٹ کے ساتھ بھیجا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اختلاف یا بل واپس بھیجنے کے لیے 10 دن ہیں جو 11 اگست کو مکمل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ معزز صدر مملکت نے بل کی نہ تو مخالفت کی اور نہ ہی بل پر نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیجنے کی تحریری اجازت دی اور فائل تاحال سیکریٹری کے دفتر کو نہیں بھیجی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ 8 اگست کو موصول ہوا اور سیکریٹری کی جانب سے 9 اگست کو صدر کے دفتر بھیج دیا گیا اور ساتھ نوٹ میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی کے پاس سے اختلاف یا واپس بھیجنے کے لیے 10 دن ہیں۔

وقار احمد نے کہا کہ صدر عارف علوی نے کسی آپشنز کا جواب نہیں دیا اور بل تاحال سیکریٹری کے دفتر کو نہیں بھیجا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مذکورہ حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ میں نے تو ان دونوں بلز کے حوالے سے تاخیر کی نہ ہی کسی قسم غفلت یا غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور فائلز ابھی تک یعنی 21 اگست تک صدر کے دفتر میں موجود ہیں جبکہ صدر عارف علوی نے وقار احمد کی خدمات واپس کیں جو انصاف کی بنیاد پر نہیں ہے۔

صدر مملکت سے درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) یا کسی اور ادارے کے ذریعے انکوائری کے احکامات صادر کریں تاکہ حقائق کا تعین ہو اور اگر کسی افسر یا عہدیدار کی جانب سے کسی قسم کی غلطی ہوئی ہے تو اس کوتاہی کی ذمہ داری بھی عائد ہو۔

وقار احمد نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ یا کوئی عدالت ان بلز کے حوالے سے وضاحت کے لیے مجھے طلب کرتی ہے تو میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پیش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی تمام حقائق سے آگاہ ہیں اور دہرایا کہ حقیقت یہی ہے کہ میں نہ تو تاخیر یا صدر کے معزز دفتر کو نظر انداز کرنے کا مرتکب ہوا ہوں اور کہا کہ وہ حلف پر بیان دے سکتے ہیں۔

وقار احمد نے درخواست کی کہ ان کے بطور صدر کے سیکریٹری خدمات واپس کرنے کا خط بھی واپس لیا جائے۔

چیف جسٹس اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں، بابراعوان

پی ٹی آئی رہنما بابراعوان نے چیف جسٹس عمر عطابندیال پر زور دیا کہ وہ صدر عارف علوی کے دعووں پر ازخود نوٹس لیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ویڈیو بیان میں بابراعوان نے کہا کہ ملک کا صدر ریاست اور پارلیمنٹ کا سربراہ، مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور ملک کے معاہدے ان کے نام سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’صدر مملکت نے جو کہا ہے وہ مصدقہ اور اہم ہیں، آئین صدر کے زیر کام کرنے والے کسی شخص کو چاہے سیکریٹری ہو یا چپراسی کو قانون پر عمل درآمد یا مداخلت یا اس کو سبوتاژ کرنے کا حق نہیں دیتا ہے‘۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے کہا کہ ’انتہائی سنجیدہ قسم کا جرم سرزد ہوا ہے اور آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے‘ کو آرٹیکل 6 (انتہائی غداری) کے تحت آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت صدر یہ معاملہ سپریم کورٹ کو بھیج سکتا ہے، صدر کے دعوؤں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ یہ ’پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں سب سے بڑی ٹوئٹ ہے‘۔

بابراعوان نے کہا کہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور میری ان سے یہی درخواست ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاک آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 کی منظوری کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری تردید بیان میں کہا تھا کہ ’خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔‘

ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا تھا کہ ’میں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ (دستخط کے بغیر) واپس بھجوائے جاچکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ واپس بھجوائے جاچکے ہیں، تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔‘

انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔‘

وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت کے اس بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔

بیان میں کہا گیا کہ اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔

مزید کہا گیا تھا کہ بلز پر تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔

اگر صدر مملکت کو بلز پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔

وزارت قانون نے کہا تھا کہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا، صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔

واضح رہے 20 اگست کو ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط کردیے، جس سے دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔

دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی شدید تنقید کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔

سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے، اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گی۔

آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہو، اسے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگی۔

ایکٹ میں شامل ترامیم آرمی چیف کو مزید اختیارات دیتی ہیں اور سابق فوجیوں کو سیاست میں شامل ہونے یا ایسے منصوبے شروع کرنے سے روکتی ہے جو فوج کے مفادات سے متصادم ہو سکتے ہوں، اس میں فوج کو بدنام کرنے پر قید کی سزا بھی تجویز کی گئی۔

آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے 2 برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024