الیکشن کمیشن پر انتخابی حلقہ بندیوں میں آبادی کا مساوی تناسب یقینی بنانے پر زور
ایسے وقت میں جب الیکشن کمیشن تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی از سر نو تشکیل کی تیاری کر رہا ہے، مانیٹرنگ گروپ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے اس پر زور دیا ہے کہ وہ لازمی طور پر اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر انتخابی حلقے میں تقریباً برابر تعداد میں رہائشی ہوں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حلقہ بندیوں کا فیصلہ الیکشنز ایکٹ، 2017 میں حالیہ ترامیم کے بعد کیا گیا ہے جس میں سیکشن 20 (3) میں ایک نیا ضابطہ شامل کیا گیا ہے جس کے تحت اب ای سی پی کو موجودہ ضلعی حدود کی اس وقت سختی سے پابندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب ایسا کرنے سے کسی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی میں فرق 10 فیصد سے تجاوز کر جائے۔
فافن نے کہا کہ ایسے اقدامات منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری ہیں جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 218 (3) میں کہا گیا ہے، غیر مساوی حلقہ بندیاں آرٹیکل 25 کے تحت قانون کی نظر میں شہریوں کے برابری کے حقوق کی ضمانت کی روح کی بھی خلاف ورزی ہے۔
فافن نے کہا کہ نئی ترامیم نے سیکشن 20 (1) کی ضرورت کو غیر مؤثر کر دیا جس نے الیکشن کمیشن کو مجبور کیا کہ وہ انتخابی حلقوں کی ازسر نو تشکیل کرتے وقت انتظامی اکائیوں کی موجودہ حدود کو مدنظر رکھے۔
یہ حد بندی کے عمل پر ایگزیکٹو کے اثر و رسوخ کو بھی کم کرے گا جو پہلے کسی موجودہ انتظامی یونٹ کی حدود کی تشکیل یا دوبارہ وضاحت کر کے ایسا کر سکتا تھا۔
فافن نے کہا کہ 2022 میں مکمل ہونے والی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی کے دوران ضلعی حدود پر سختی سے عمل کرنے کے نتیجے میں 82 قومی اور 88 صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی مختص کوٹہ فی سیٹ 10 فیصد سے زیادہ مختلف تھا۔
اس میں کہا گیا کہ 10 فیصد سے زیادہ آبادی کے فرق والے قومی اسمبلی کے حلقوں میں پنجاب کے 34، خیبرپختونخوا کے 22، سندھ کے 23 اور بلوچستان کے 3 حلقے شامل ہیں، اسی طرح صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں خیبرپختونخوا کے 30، بلوچستان کے 28، سندھ کے 18 اور پنجاب کے 12 حلقے شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کا سب سے بڑا حلقہ این اے 39 بنوں ہے جس کی آبادی 12 لاکھ سے زیادہ ہے جو سب سے چھوٹے حلقے این اے 42 ٹانک کی آبادی سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
فافن کے اندازے کے مطابق اگر ماضی کی طرح اضلاع کی حدود کا احترام کیا جائے تو قومی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی کا فرق خیبر پختونخوا کے دو تہائی، سندھ کے نصف، ایک تہائی پنجاب اور بلوچستان کے تمام اضلاع کے حلقوں کے لیے مختص علاقائی کوٹے سے 10 فیصد سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
مانیٹرنگ گروپ نے تجویز دی کہ الیکشن کمیشن۔ انتخابی ایکٹ کے سیکشن 20 (3) میں نئے شامل کیے گئے ضابطے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے لیے حلقہ بندیوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے اپنے قوانین میں ترمیم پر غور کر سکتا ہے۔
اس نے رولز 10 (4) اور 10 (5) میں ترمیم کی بھی سفارش کی تاکہ ضلع میں 5 فیصد کے بجائے صوبے میں آبادی کے فرق کو زیادہ سے زیادہ 10 فیصد تک محدود کیا جاسکے۔
فافن نے اس بات کو دہرایا کہ انتخابی عمل کو بہتر بنانے، انتخابی حلقوں کی حدود میں آبادی کے عدم توازن کو روکنے، منتخب اداروں میں تمام جغرافیائی، لسانی، نسلی اور مذہبی اکائیوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے حد بندی میں خاطر خواہ بہتری انتہائی اہم ہے۔