آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں شاہ محمود قریشی کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
19 اگست کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا گیا تھا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست پر ان کیمرا سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر میڈیا سمیت تمام غیر متعلقہ افرد کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی گئی۔
سماعت کے اختتام پر پی ٹی آئی رہنما کے وکیل شعیب شاہین نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ دونوں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
بعد ازاں ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں گرفتار شاہ محمود قریشی کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک میں پہلی خصوصی عدالت قائم
قبل ازیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملک بھر میں درج مقدمات کی سماعت کے لیے اسلام آباد میں خصوصی عدالت قائم کردی گئی۔
قانون کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی سماعت ان کیمرا ہو گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا اضافی چارج انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو سونپ دیا گیا ہے، جج ابوالحسنات آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کی سماعت کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط کردیے جس سے دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں، اس خبر کے سامنے آنے کے چند گھنٹے بعد صدر مملکت نے ان بلز پر دستخط کی تردید کردی تھی۔
دونوں بلوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اور چند ہفتے قبل حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کی شدید تنقید کے باوجود منظوری کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا تھا۔
سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 6 (اے) انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت کے غیر مجاز انکشاف کو جرم قرار دیتا ہے، اس جرم کی سزا 3 سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گی۔
آرمی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات افشا کرے گا، جو پاکستان یا مسلح افواج کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ ہو یا ہو سکتی ہو، اسے 5 سال قید بامشقت کی سزا ہوگی۔
ایکٹ میں شامل ترامیم آرمی چیف کو مزید اختیارات دیتی ہیں اور سابق فوجیوں کو سیاست میں شامل ہونے یا ایسے منصوبے شروع کرنے سے روکتی ہے جو فوج کے مفادات سے متصادم ہو سکتے ہوں، اس میں فوج کو بدنام کرنے پر قید کی سزا بھی تجویز کی گئی۔
آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا ملازمت سے برطرفی کے 2 برس بعد تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
یاد رہے کہ دو روز قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا گیا تھا۔
گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ان کا ایک روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں آج عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔
ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔