• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

بلز پر دستخط کی تردید: وزارت قانون و انصاف کا صدر مملکت کے ٹوئٹ پر شدید تشویش کا اظہار

شائع August 20, 2023
فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزارت قانون و انصاف نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہ کرنے کے صدر مملکت کے حالیہ بیان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔

بیان میں کہا گیا کہ اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔

مزید کہا گیا ہےکہ بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔

اگر صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔

وزارت قانون نے کہا کہ یہ تشویشناک امر یہ ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا، صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔

پی ٹی آئی کا معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کا اعلان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، وہ پارٹی جس سے صدر عارف علوی کا 2018 میں اپنی صدارتی مدت کے آغاز سے پہلے تعلق تھا، نے ’ایکس‘ پر اعلان کیا کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جائے گی۔

پارٹی نے ’خوف سے بالاتر ہو کر آئین اور قانون، شہریوں کے بنیادی حقوق اور جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بقا اور سلامتی کے لیے مؤقف اختیار کرنے پر صدر کا شکریہ ادا کیا۔‘

پارٹی نے قومی اور عدالتی سطح پر صدر کی ’مکمل حمایت‘ کا بھی اعلان کیا۔

دریں اثنا، پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے صدر کے اسٹاف کے خلاف ان کے احکامات کی ’نافرمانی‘ کرنے پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اس بات کا پتا لگانے کے لیے انکوائری شروع کی جائے کہ ’اس طرح کے حساس معاملے سے متعلق احکامات کی خلاف ورزی کیسے اور کیوں کی گئی‘۔

’آگے کا ہنگامہ خیز وقت‘

دریں اثنا قانونی ماہرین نے بھی پیش رفت اور اس کے مضمرات پر روشنی ڈالی۔

قانون دان اسامہ خاور نے بتایا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے اور پھر صدر کے دستخط کے بعد بل کیسے قانون بن جاتا ہے۔

تاہم ’حالیہ تنازع‘ میں اسامہ خاور نے کہا کہ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے صدر کو ’طاقتور پوزیشن‘ پر رکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر وہ بل واپس کر دیتے تو وہ بنیادی طور پر انہیں ختم کرتے کیونکہ بل منظور کرنے کے لیے کوئی قومی اسمبلی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارتی منظوری کی جعلسازی کا مبینہ ارتکاب ہماری ریاست اور سیاست میں زوال کی ایک نئی سطح ہے، یہ کئی حوالوں سے تشویشناک ہے۔

اسامہ خاور نے کہا کہ اگر صدر بھی جعلسازی سے محفوظ نہیں ہیں، تو یہ ریاست کے لیے اچھا نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں قوانین کی درستی کو آئینی طور پر چیلنج کرنے کی صورت میں، اب عدالت کے پاس یہ قرار دینے کے لیے مضبوط قانونی بنیادیں موجود ہیں کہ آفیشل سیکرٹس (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ (ترمیمی) ایکٹ 2023 درست طریقے سے نافذ نہیں کیے گئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر کو ایوان صدر کے اہلکاروں کے خلاف فوجداری اور تادیبی کارروائی شروع کرنی چاہیے، پاکستان پینل کوڈ کے تحت جعلسازی ایک مجرمانہ جرم ہے اور اس کی سزا 7 سال تک قید ہے۔

اسامہ خاور نے کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں صدر کی سنجیدگی کا اندازہ اس وقت لگایا جائے گا جب وہ اپنے عملے کے خلاف مجرمانہ کارروائی شروع کرتے ہیں کیونکہ ان جمہوریت دشمن اور توسیع پسند قوانین کے متاثرین سے صرف معافی مانگ لینا کافی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر کو اس جعلسازی کے بارے میں قانون سازی کی شاخوں، سینیٹ اور اسمبلی سیکریٹریٹ، ایگزیکٹو برانچز، کابینہ سیکریٹریٹ، متعلقہ وزارتوں کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ جعلی کارروائیوں کو گزٹ آف پاکستان میں شائع نہ کریں۔

وکیل باسل نبی ملک نے کہا کہ صورتحال پریشان کن ہے، اس کے ساتھ صدر کے طور پر ان کی رضامندی کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زیر بحث بل قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں، لہٰذا آگے ہنگامہ خیز وقت دیکھنے کو ملے گا۔

بیرسٹر ردا حسین نے کہا کہ آئین، بلوں کی منظوری کا واضح طریقہ کار طے کرتا ہے اور بتایا کہ آرٹیکل 75 کیسے کام کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 75 کے تحت صدر 10 دن کے اندر یا تو کسی بل کی منظوری دے سکتے ہیں یا اس پیغام کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج سکتے ہیں کہ بل پر دوبارہ غور کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر بل کو واپس کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اس کے دو مراحل ہیں، پہلا مرحلہ آرٹیکل 75 (1) (بی) کے تحت بل کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو واپس کرنا ہے اور دوسرا مرحلہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے جس میں درحقیقت بل پر دوبارہ غور کرنا اور (ترمیم کے ساتھ یا بغیر) اسے آرٹیکل 75 (2) کے تحت دوبارہ منظور کرنا ہے۔

اگر صدر حقیقت میں اپنی رضامندی نہیں دیتے تو ردا حسین نے ’رضامندی سمجھے جانے‘ کے تصور کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ رضامندی سمجھے جانے کی شق کا اطلاق صرف اس وقت ہوتا ہے جب بل پر دوبارہ غور کیا جاتا ہے اور آرٹیکل 75 (2) کے تحت اسے پارلیمنٹ کی مشترکہ نشست میں منظور کیا جاتا ہے۔ غیر دستخط شدہ بل کے ساتھ کوئی اپنے طور پر سمجھی جانے والی منظوری منسلک نہیں ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ صدر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم پر دستخط اور منظوری نہیں دی، ان دونوں بلوں میں سے کسی پر بھی کبھی دوبارہ غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی پارلیمنٹ نے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا، اس معاملے میں کوئی رضامندی نہیں سمجھی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر کے دعوے سچے ہیں، تو ان میں سے کوئی بھی قانون، قانون سازی کا درست حصہ نہیں ہے۔

بیرسٹر اسد رحیم خان نے کہا کہ آرٹیکل 75 کے تحت سمجھی ہوئی منظوری دوسری بار صدر کو بل بھیجنے سے متعلق ہے، نہ کہ پہلی بار۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ پہلا دور تھا، اس لیے بل کی قانون میں منظوری کے لیے صدر کی واضح رضامندی ضروری تھی اور اس سے کم یہ ہے کہ اسے آرٹیکل 75 (1) بی کے تحت واپس کر دیا جائے۔

’انتہائی حیران کن‘

سیاست دانوں اور صحافیوں نے صدر عارف علوی کے دعووں پر عدم اعتماد اور مایوسی کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما فرخ حبیب نے اس پیشرفت کو انتہائی افسوسناک اور پورے نظام کے خاتمے کے مترادف قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی وکلا برادری کو اب آئین کی بالادستی کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

سابق وزیر خزانہ و مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اسحٰق ڈار نے کہا کہ صدر کے ریمارکس ناقابل یقین ہیں، اور اپنا دفتر مؤثر طریقے سے چلانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر زور دیا۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ تو ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا، اگر صورتحال واقعی ایسی ہی ہے جیسی کہ صدر نے لکھی ہے تو یہ ریاست پاکستان، پارلیمنٹ، قانون سازی کے ساتھ ساتھ 24کروڑ پاکستانیوں کی توہین ہے۔

سینیٹر نے لکھا کہ معاملات ایک دفعہ پھر عدالتوں میں جائیں گے، ملک کے اعلی ترین منصب کے اس حال سے پاکستان کے حالات کا اندازہ لگاجاسکتا ہے، اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔

سینئر صحافی منصور علی خان نے لکھا کہ 27 گھنٹوں کے بعد صدر نے تردید کی کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے، تردید جاری کرنے میں انہیں 27 گھنٹے کیوں لگے؟

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’صدر عارف علوی کھل کر بات کریں، اگر انہیں بلوں سے اختلاف تھا تو انہوں نے کیوں اپنے اعتراضات درج نہ کیے، ہاں یا نا کے بغیر بل واپس بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’میڈیا پر خبریں آنے کے باوجود وہ دو دن کیوں چپ رہے، بولے بھی تو معاملہ اور الجھا دیا، اگر ان کا عملہ بھی ان کے بس میں نہیں تو مستعفی ہو کر گھر چلے جائیں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 100 سے کم الفاظ کی ٹوئٹ میں صدر عارف علوی نے وہ کیا جو پچھلی دہائی میں کوئی نہیں کر سکا، ایٹم بم پھٹ گیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ بہت سے لوگوں کو فوری طور پر ختم کرنے کے علاوہ اس کی مہلک شعاعیں آنے والے برسوں میں بھی ہلاک اور معذور کرتی رہیں گی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اب کچھ بھی ہو جائے عارف علوی کو بہت سے لوگوں کی گہری عزت حاصل ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے ہی سینئر رہنما رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’صدر کی جانب سے لگائے گئے الزامات انتہائی سنگین ہیں اور ان کے پورے نظام پر دور رس اثرات ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ سینیٹ سے تحقیقات کرائی جائیں، صدر اور ان کے متعلقہ عملے کو بار آف سینیٹ کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ صدر نے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا ہے تو ان کے خلاف آئین اور قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے۔

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کی تردید کردی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ ’خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔‘

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024