!آپ خوش نصیب ہیں
آپ خوش نصیب ہیں۔
اگرآپ انگریزی پڑھ سکتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ نہایت خوش قسمت ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہے آپ دنیا کی سب سے بڑی لاٹری جیت چکے ہیں۔ اب آپ پاکستان میں مراعات یافتہ اقلیتی طبقہ میں شامل ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی آبادی لگ بھگ 200 ملین (20 کروڑ) ہے جس میں سے تقریباً 6 ملین (60 لاکھ) روزانہ اخبار خریدتے ہیں ان میں سے انگریزی روزنامے صرف دس فی صد ہیں تو صاف ظاہرہے کہ آپ ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ آپ کی پڑھنے کی عادت سے بھی آپ کے بارے میں بہت کچھ پتہ چل جاتا ہے۔ یعنی عین ممکن ہے کہ آپ نے کسی پرائیوٹ اسکول میں تعلیم پائی ہو اور اس کا مطلب ہے آپ پاکستان کے اعلیٰ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا اپنا مکان اور کار ہو۔
آپ چونکہ نسبتاً خوشحال ہیں اس لئے آپ کے بچے بھی پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہونگے۔ اگر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تو انہیں اچھی ملازمت بھی مل جائیگی اور اچھی جگہ شادی بھی ہو جائیگی۔ مختصر یہ کہ مراعات اور خوشحالی ایک نسل سے دوسری نسل تک بلا روک ٹوک خودبخود منتقل ہوتی رہیگی۔
اگرچہ یہ ایک عام سا کلیہ ہے، لیکن انگریزی اخبار خریدنے اور پڑھنے کا مطلب ہے آپ کی زندگی پر آسائش ہے۔
بعض لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جیک پاٹ جیتنے کا مطلب ہے آپ کے پاس گرین کارڈ ہو، مین ہٹن میں ایک پینٹ ہاؤس ہو اور آپ ایک کشتی کے مالک ہوں۔ لیکن بہتر ہے ہم اتنا لالچ نہ کریں۔ اگر آپ پاکستان کے 1۔0 فی صد طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کوشکر ادا کرنا چاہئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ آج آپ جس مقام پر ہیں اس کا تعلق بڑی حد تک آپ کی پیدائش سے بھی ہے۔ یعنی ہم میں سے بہت سے ایسے والدین کے گھر پیدا ہوئے جو ہمیں اچھے اسکولوں میں بھیج سکتے تھے۔
کچھ دیر کیلئے سوچئے آپ کی پیدائش سندھ کے کسی دیہات میں ہوئی ہوتی اور آپ کے والدین زرعی مزدور ہوتے۔ اگر آپ لڑکا ہوتے تو آپ کسی چھوٹے سے کھیت میں کام کرنے کی بجائے اسکول جاتے جہاں آپ کو نہ پینے کا پانی ملتا اورنہ ہی رفع حاجت کی سہولت۔ یہ حالات اس حقیقت کے باوجود ہیں کہ پاکستان کی 72 فیصد گیس اور تیل اسی صوبہ سے نکلتی ہے۔ تیل کی کمپنیوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک فی صد حصہ مقامی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے میں صرف کرینگی۔ لیکن یہ مسلسل اس میں ناکام رہی ہیں۔
سندھ کے دیہی علاقے کی آبادی کی اکثریت کو اپنی روزمرہ کی غذا میں 1700 کیلوریز ملتی ہیں جو جسم کی ضرورت کے لحاظ سے خاصی کم ہے۔ چنانچہ اندرون سندھ کی آبادی جو اس کی مجموعی آبادی کا پچاس فی صد ہے لیکن جی ڈی پی میں اس کا حصہ صرف تیس فیصد ہے۔
اس کا مطلب ہے کسی خاندان کی اوسط ماہانہ آمدنی 15000 روپیہ یا ایک سو پچاس ڈالرہے۔ اس قلیل آمدنی میں آپ کسی خاندان کی کفالت کس طرح کر سکتے ہیں؟
کسی زمانہ میں سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار اگرچہ ناہموار تھا لیکن اتنا خراب نہیں تھا جتنا کہ آج ہے۔ ہمارے ملک کی بہت سی نامور شخصیتوں نے انہیں اسکولوں میں تعلیم پائی۔ میں نے خود اپنی ابتدائی تعلیم ایسے ہی اسکول میں حاصل کی جہاں کے کلاس روم بہت ہی معمولی ہوتے تھے اور ہم اردو لکڑی کی تختیوں پر نرسل کے قلم سے سیاہی میں ڈبو کر لکھتے تھے۔ لیکن جیسا کہ دوسرے سرکاری اداروں کے ساتھ ہوا اسکول بھی بہتر ہونے کی بجائے اور بھی بدتر ہوتے گئے۔ اور اگر آج کوئی بچہ بدقسمتی سے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے غربت کے شکنجے سے نکلنے کے مواقع بہت ہی کم ہیں۔
مٹھی بھر اسکول ہیں جہاں ضرورت مندوں کے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے جنہیں این جی اوز مثلاً دی سٹیزن فاونڈیشن چلاتی ہیں۔ لیکن ہماری آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ سمندر کا محض ایک قطرہ ہے۔ جب تک کہ ریاست بامقصد طور پر اپنا رول ادا نہیں کرتی ہے بچوں کی نسل در نسل غربت کا شکار رہیگی۔
پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی ایک تہائی تعداد کوغیر متوازن غذا ملتی ہے جس کے نتیجے میں ان بچوں کی نصف تعداد کی جسمانی نشوونما نہیں ہو پاتی اور انکے جسم سکڑ جاتے ہیں۔ اس مستقل بھوک سے صرف ان کے جسم ہی نہیں سکڑتے ان کی ذہنی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے۔ برطانیہ میں بھی، جو کسادبازاری کا شکار ہے ہزاروں کی تعداد میں بچے بغیر ناشتہ کئے اسکول جاتے ہیں۔ ان کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ بچے کلاس میں توجہ نہیں دے پاتے اور نہ ہی اپنا سبق یاد رکھ پاتے ہیں۔ اب آپ سوچئے پاکستان کے دیہاتوں میں کیا ہوتا ہو گا جہاں کے کلاس روم میں بھوکے بچے تپتے ہوئے کمروں میں بیٹھتے ہیں۔
دیگر ترقی پزیر ممالک میں ریاست ان غیرمساوی حالات کو درست کرنے کی تھوڑی ہہت کوشش کرتی ہے۔ سری لنکا میں اور ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں اسکولوں میں روزانہ مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
لیکن پاکستان میں، اگرچہ یکے بعد دیگرے مختلف حکومتوں نے مفت تعلیم دینے کے وعدے کئے لیکن لاکھوں بچے تعلیم کے بنیادی حق سے آج بھی محروم ہیں۔ اس لئے اگر والدین اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں بھیجتے ہیں جو انہیں کھانا بھی کھلاتے ہیں تو پھر حیرت کیوں ہے؟
انتہا پسندی کی تعلیم عموماً ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بچے ان مدرسوں میں تعلیم پاتے ہیں انہیں ملازمتیں نہیں ملتیں اس لئے اگر وہ جہادی گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟
لڑکوں کے ساتھ یہ کچھ ہو رہا ہے تو سوچئے کہ لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ بہت سے ماں باپ تو لڑکیوں کو اس لئے اسکول نہیں بھیجتے کیونکہ وہاں رفع حاجت کی سہولتیں موجود نہیں۔ پاکستان کے بہت سارے علاقوں میں تولڑکیوں کو گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں۔ اور بعض علاقوں میں جہاں وہ اسکول جانے کی کوشش بھی کرتی ہیں تو ان کے اسکولوں کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے۔
ٹی وی اسٹودیوز اور اخباروں کے اداریوں میں قومی عزت اورخود مختاری کی اونچی اونچی باتیں کرنے والے ہم تمام لوگوں نے اپنے لاکھوں ہموطنوں کو اپنی بے توجہی سے مایوس کیا ہے۔ ہم میں سے اکثر تو اس جمود پر بھی خوش ہیں لیکن کیونکہ ہماری زندگی کی لاٹری نکل آئی ہے لہٰذا ہم اپنی ذات میں مگن ہیں۔
لیکن درحقیقت، لاکھوں افراد کو غربت، جہالت اور امراض کے حوالے کر کے ہم نے پاکستان کو مستقل پستی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
اس اخبار کو پڑھنے والے بھی اس بے حسی میں حکومت کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، ہم اپنی اپنی توجیہات پیش کرتے ہیں لیکن سیدھی سادی حقیقت یہ ہے کہ ہم حکومت وقت پر دباؤ نہیں ڈالتے کہ وہ غریبوں کی جانب توجہ دے۔
ہم بے شرمی کے ساتھ، ہاتھ میں بھیک کا پیالہ اٹھائے مدد مانگتے جاتے ہیں، لیکن برسہا برس سے اربوں ڈالر کی مدد کے باوجود ہمارے بچے تعلیم کی انتہائی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں اور افسوس یہ پے کہ ہمیشہ ہی زندگی کی سب سے بڑی لاٹری ہارتے ہی رہینگے۔
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (2) بند ہیں