• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

جڑانوالہ: مسیحی برادری کے ’گھر، چرچ جلانے‘ پر 600 سے زائد افراد کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج

شائع August 17, 2023 اپ ڈیٹ August 18, 2023
گزشتہ روز سیکروں افرد  کے مشتعل ہجوم نے پانچ گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کر دیا تھا—فوٹو:کاشف حسین
گزشتہ روز سیکروں افرد کے مشتعل ہجوم نے پانچ گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کر دیا تھا—فوٹو:کاشف حسین

صوبہ پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں پولیس نے ایک روز قبل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے گھروں اور چرچ کی عمارت کو نذر آتش کرنےکے الزام میں 600 سے زائد افراد کے خلاف دہشت گردی کے 2 مقدمات درج کرلیے۔

گزشتہ روز سیکروں افرد کے مشتعل ہجوم نے پانچ گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کر دیا تھا جب کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی رہائش گاہوں اور مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر پر بھی حملہ کیا تھا۔

اس دوران مسیحی برادری کے قبرستان اور مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی، اس واقعے کے بعد پنجاب حکومت نے رینجرز کو طلب کیا جب کہ ایلیٹ فورس سمیت مختلف پولیس یونٹوں کے 3000 پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے تھے۔

پولیس اور مقامی ذرائع کے مطابق تشدد اس وقت شروع ہوا جب کچھ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ جڑانوالہ سینما چوک میں ایک گھر کے قریب سے جہاں 2 مسیحی بھائی رہائش پذیر ہیں، قرآن پاک کے متعدد صفحات ملے ہیں۔

صورت حال کی روشنی میں ضلعی انتظامیہ نے علاقے میں 7 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، حکومت کی جانب سے تقریبات کے علاوہ ہر قسم کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

دونوں فرسٹ انفارمیشن رپورٹس جڑانوالہ سٹی پولیس اسٹیشن کے ایک سب انسپکٹر نے درج کروائی ہیں اور رپورٹنگ کا وقت بدھ 16 اگست کی صبح 10 بجے بتایا ہے۔

ایف آئی آرز میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے ایک گروپ کی قیادت میں 500سے 600 افراد کے ہجوم نے مسیحی برادری پر حملہ کیا، لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے کے بعد توڑ پھوڑ کی اور مسیحی برادری کے گھروں اور چرچ کی عمارت کو نذر آتش کیا۔

ایف آئی آر میں ہجوم کی قیادت کرنے والے 8 افراد کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے ایک شخص کا تعلق جماعت اہلسنت اور دوسرے کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے۔

ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی 1997 ایکٹ کی دفعہ سمیت پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر میں پنجاب ساؤنڈ سسٹمز (ریگولیشن) ایکٹ 2015 کی دفعہ 5 اور 6 بھی شامل ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق، صبح 9 بج کر 20 منٹ کے قریب ایک شخص نے سینما چوک کے قریب واقع مہتاب مسجد کے لاؤڈ اسپیکرز کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف جمع ہونے اور احتجاج کرنے کی ترغیب دی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ہجوم نے لوگوں کا سامان گھروں سے باہر پھینکا اور انہیں آگ لگانا شروع کر دی، مشتبہ افراد کیتھولک چرچ میں بھی داخل ہوئے، وہاں موجود چیزوں کو تباہ کیا اور اس کی عمارت کو نقصان پہنچایا اور نذر آتش کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ بعد ازاں فیصل آباد ہیڈ کوارٹر سے پولیس وہاں پہنچی اور آنسو گیس پھینک کرہجوم کو منتشر ہونے پر مجبور کیا گیا۔

مزید 29 مشتبہ افراد کو نامزد کرتے ہوئے ایف آئی آر میں کہا گیا کہ انہیں آنسو گیس کے استعمال کے بعد قابو کیا گیا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ راڈولا روڈ اسٹیشن ہاؤس افسر غلام رسول اور کانسٹیبل محمد وقاص مشتبہ افراد کے جان لیوا حملے کے نتیجے میں زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے لیے فوری طور پر قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔

ایف آئی آر میں پنجاب ساؤنڈ سسٹم ریگولیشن ایکٹ 2015، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 سمیت دیگر مختلف دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

پولیس اہلکار نے بتایا کہ وہ اور دیگر اہلکار صبح 9 بج کر 30 منٹ پر فوارہ چوک پر تھے کہ انہوں نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر توہین مذہب اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے بارے میں اعلان سنا۔

اہلکار نے کہا کہ جلد ہی یہ پیغام پھیل گیا اور شہری چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں شہر بھر میں جمع ہونے لگے، اہلکار نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کے پیش نظر اس نے بیک اپ فورس طلب کی۔

پولیس اہلکار کے مطابق اس دوران، 500سے 600 کے درمیان لاٹھیوں، ڈنڈوں اور سلاخوں سے لیس افراد مسجد کے سامنے جمع ہوئے اور نعرے لگانے لگے۔

انہوں نے کہا کہ ہجوم کو مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملے کے لیے اکسایا گیا تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مزاحمت کی اور مسیحی برادری کے گھروں میں زبردستی گھسے اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران بیک اپ فورس پہنچی اور پرتشدد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جب کہ ان میں سے 29 افراد کو حراست میں لے لیا گیا جن میں سے 12 کو درج ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر نے کل تاریخ کے ساتھ ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت تحصیل جڑانوالہ میں آج بروز جمعرات علاقے میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے ’مقامی تعطیل‘ کا اعلان کیا گیا۔

اس حکم نامے میں کہا گیا کہ تمام سرکاری محکمے اور نجی ادارے بند رہیں گے۔

گرجا گھروں، مکانات کو تین سے چار دنوں میں بحال کیا جائے گا، محسن نقوی

پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے پرتشدد واقعات کے دوران نذر آتش کیے گئے تمام گرجا گھروں اور مسیحی برادری کے گھروں کو تین سے چار دن کے اندر بحال کرنے کا عزم کیا ہے۔

لاہور میں آج ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے گزشہ روز پیش آنے والے پرتشدد واقعات کی مذمت کی اور زور دیا کہ اس طرح کے واقعات اسلام اور پیغمبر اکرم کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔

نگران وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ ہجوم کی زیر قیادت حملہ ملک میں آگ لگانے اور اس کے امن کو سبوتاژ کرنے کی ’منصوبہ بند سازش‘ تھی۔

محسن نقوی نے کہا کہ جڑانوالہ واقعے کے دونوں مرکزی ملزمان اب محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی حراست میں ہیں، چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب اس حوالے سے ان تھک کوششوں پر قابل داد ہیں۔

محسن نقوی نے مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اقلیتی برادری کے ساتھ بیٹھ کر ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک منصوبہ بنانا چاہیے۔

انہوں نے مذہبی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ قرآن پاک کے پیغام کو لوگوں میں پھیلائیں۔

گرجا گھروں اور عیسائیوں کے گھروں کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے محسن نقوی نے عزم کیا کہ پنجاب حکومت اگلے تین سے چار دنوں میں تمام عمارتوں کو ان کی اصل حالت میں بحال کر دے گی۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی نقصان ہوا ہے، حکومت، مسلمانوں اور انسانوں کی بحیثت، ہم ان کو بحال کریں گے۔

نگراں وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ تمام پاکستانی ایک ہیں اور مستقبل میں ایسی کسی بھی سازش کو روکنے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں اس عمل کیے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

محسن نقوی نے گزشہ روز جڑانوالہ میں صورت حال کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے اور کسی بھی جانی نقصان کو روکنے پر صوبائی چیف سیکریٹری اور پولیس سربراہ کو بھی سراہا۔

تشدد کیسے شروع ہوا

مبینہ گستاخانہ فعل کی افواہیں بدھ کے روز جڑانوالہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں جب کہ الزامات لگانے والوں نے مختلف مساجد میں جا کر لوگوں کو واقعے پر اپنا ”ردعمل“ دکھانے کے لیے اکسایا اور اعلانات کیے۔

مقامی ذرائع کے مطابق صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو گئی جب ٹی ایل پی سے تعلق رکھنے والے ارکان میدان میں اترے، مساجد و دیگر مقامات سے اعلانات کر کے لوگوں کو مبینہ واقعے کی جگہ پر پہنچنے کے لیے اکسایا، جلد ہی ہجوم ان 2 افراد کے گھر کے باہر جمع ہو گیا، پھر اسے آگ لگا دی، جس کے بعد پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا جب کہ گھر اس سے قبل ہی خالی کردیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد جڑانوالہ تحصیل میں لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر 2 گرجا گھروں پر حملہ کر دیا، ایک گرجا گھر کا تعلق کیتھولک اور دوسرے کا تعلق سیلویشن آرمی سے تھا۔

ہجوم نے دو قریبی علاقوں میں حملہ کر کے متعدد عیسائی گھروں کو جلا دیا۔

عیسائی برادری کے رہنماؤں نے کہا کہ ہجوم نے تین دیگر گرجا گھروں کو بھی نذر آتش کیا اور گھروں سے قیمتی سامان لوٹ لیا جنہیں مالکان نے تشدد کے خوف سے چھوڑ دیا تھا۔

جڑانوالہ کے پادری عمران بھٹی نے بتایا کہ ہجوم نے علاقے میں مجموعی طور پر پانچ گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور انہیں نذر آتش کیا، جن چرچز کو نذر آتش کیا گیا ان میں یونائیٹڈ پریسبیٹیرین چرچ، الائیڈ فاؤنڈیشن چرچ اور عیسیٰ نگری میں واقع شہرون والا چرچ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں نے مقامی مسیحی قبرستان کو بھی نہیں بخشا، قبروں کو توڑا گیا اور باؤنڈری وال کا ایک حصہ گرا دیا گیا۔

مشتعل ہجوم نے جڑانوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح کے دفتر پر بھی حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی جب کہ وہ ہجوم کے پہنچنے پر وہاں سے نکل چکے تھے۔

مظاہرین کے ایک گروپ نے جڑانوالہ انٹر چینج پر فیصل آباد تا عبدالحکیم موٹروے کو بھی ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔

انہوں نے یقین دلایا کہ مذہبی مقامات کی حفاظت ناصرف مسلمانوں بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔

1947 سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 100 کے قریب افراد قتل

گزشتہ ہفتے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں لینگویج سینٹر سے منسلک ایک ٹیچر کو توہین مذہب کے الزام میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔

رواں سال فروری میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک واقعے میں ننکانہ صاحب میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا جہاں اس پر الزام تھا کہ اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1947 میں آزادی سے اب تک توہین مذہب کے ایک ہزار 415 الزامات عائد کیے گئے اور مقدمات میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 1947 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے اور محققین کا ماننا ہے کہ ’حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر 1927 میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور ضمنی شق 295 اے شامل کی گئی۔

علم الدین نے توہین مذہب سے متعلق کتاب شائع کرنے پر مہاشے راجپال کو قتل کیا تھا۔

ابھی حال ہی میں سینیٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں قابل احترام و مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس استعمال کرنے والوں کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام اور چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے والوں کی سزا 3 سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال تک کردی گئی ہے۔

تاہم پیپلز پارٹی نے اس قانون پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ کسی بھی مذہب کی کسی بھی شکل میں توہین رسالت کو معاف نہیں کیا جا سکتا اور اسے سزا ملنی چاہیے، تاہم بل کے پس پردہ عزائم پر سوالیہ نشان ہے جس سے خدشہ ہے کہ ملک میں صرف فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ ملے گا۔

گزشتہ روز جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعات پر ردِعمل دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ قانون اور آئین کا حامل ملک ہونے کے ناطے پاکستان ایسی عدم برداشت اور پرتشدد کارروائیوں کو قبول نہیں کر سکتا۔

جڑانوالہ واقعات: پاکستان ایسی عدم برداشت، پرتشدد کارروائیوں کو قبول نہیں کر سکتا، دفتر خارجہ

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائیاں غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں، قانون اور آئین کا حامل ملک ہونے کے ناطے پاکستان ایسی عدم برداشت اور پرتشدد کارروائیوں کو قبول نہیں کر سکتا۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ نگرام وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز فیصل آباد میں پیش آنے والے اس قابل مذمت واقعے کی شدید مذمت کی ہے جہاں گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا جس سے ملک بھر کی مسیحی برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔

ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والے حکام نے کل فوری کارروائی کی اور انہیں وزیراعظم کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ریاست کے مساوی شہری ہیں، ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذاہب ملک کے طور پر، پاکستان ان کے آئینی طور پر ضمانت یافتہ حقوق اور آزادیوں کے تحفظ اور فروغ اور سماجی ہم آہنگی، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024