کیا آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے؟
وہ 20 اگست 1946ء کو بھارتی ریاست کرناٹک میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے منہ میں سونے کا چمچ لےکر نہیں آیا تھا، اس کے گھر میں غربت کے ڈیرے تھے۔ وہ ابتدا سے ہی بہت ذہین تھا۔ اس کے والد چاہتے تھے کہ وہ سول سروس میں جائے مگر اسے طبعیات اور حساب کے مضامین پسند تھے اور وہ انجینیئرنگ کے شعبے میں جانا چاہتا تھا۔ اس نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرنگ میں داخلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی مگر اس کے والد اس کی فیس ادا نہ کر پائے تو اسے ایک مقامی انجینیئرنگ کالج میں داخلہ لینا پڑا۔
اس وقت بھارت میں کمپیوٹر انجینیئر بہت کم ہوتے تھے، تعلیم مکمل کرنے پر اسے بہت سے اداروں کی جانب سے نوکری کی پیشکش ہوئی۔ اس نے انڈین انسٹیٹیوٹ آف منیجمنٹ احمدآباد میں نوکری کی جس سے اسے ماہانہ 800 روپے حاصل ہوتے تھے۔ اس نے بھارت کے پہلے ٹائم شیئرنگ کمپیوٹر سسٹم پر کام کیا اور کچھ عرصے بعد اس نے اپنی کمپنی بنائی جوکہ ڈیڑھ سال بعد ہی بند ہوگئی۔
اسے بائیں بازو کے خیالات کا حامی یعنی کمیونسٹ سمجھا جاتا تھا مگر اس کے ایک سفر نے سب کچھ بدل دیا۔ وہ سربیا اور بلغاریہ کے بارڈر کے پاس ایک ٹرین پر جارہا تھا کہ جب اس کی بحث ایک لڑکی سے ہوگئی اور اس لڑکی کے ساتھی نے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس نے اسے پکڑ کر اس کا پاسپورٹ چھین لیا اور ایک چھوٹی سے کوٹھری میں 72 گھنٹے کے لیے بند کردیا۔ اسے تمام وقت بھوکا پیاسا رکھا گیا جب اسے رہا کیا گیا تو پولیس والوں نے اسے کہا کہ تم دوست ملک سے تعلق رکھتے ہو اس لیے جب استنبول پہنچو گے تو تمہارا پاسپورٹ تمہیں مل جائے گا۔ اس واقعے کے بعد اس کا دل ’کمیونزم‘ سے اُچاٹ ہوگیا اور اس کی سوچ ’کیپٹلزم‘ کی جانب مائل ہوگئی۔
ایک دوست کے ذریعے اس کی ملاقات اس کی ہونے والی بیوی سدھا سے ہوئی جو ایک پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی تھی۔ چند ملاقاتوں کے بعد اس نے سدھا سے کہا کہ میں 5 فٹ 4 انچ کا ایک معمولی شکل وصورت کا شخص ہوں جو مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ تم خوبصورت اور ذہین ہو تم سے کوئی بھی شادی کرنے کا سوچ سکتا ہے مگر پھر بھی کیا تم مجھ سے شادی کروگی؟ سدھا کو اس کی ایمانداری بھا گئی اور سدھا نے اسے اپنے ماں باپ سے ملانے کا فیصلہ کیا۔
وہ لال شرٹ پہنے دو گھنٹے دیر سے پہنچا لیکن سدھا کے والد اس کے خیالات سے زیادہ متاثر نہ ہوئے اور بولے کہ میں کیسے اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دوں؟ تم مستقبل میں ایک یتیم خانہ بنانے کا کہہ رہے ہو اور تمہاری سوچ کمیونزم سے متاثر ہے جبکہ تم اپنی فیملی کو سپورٹ بھی نہیں کر پارہے ہو؟
مگر اس نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ اس کی محبت سچی تھی اس نے دن رات لگن سے قائم کیا اور 1977ء میں وہ ایک کمپنی کا جنرل منیجر بنا اور آخر کار سدھا کے والد بھی مان گئے جبکہ دونوں کی شادی پر 800 روپے خرچا آیا جسے دونوں نے مل کر ادا کیا۔
اس کی زندگی کا ایک اور اہم موڑ اس وقت آیا جب 1981ء میں اس نے اپنے 6 دوستوں کے ساتھ مل کر 10 ہزار روپے کی سرمایہ کار کرکے ایک آئی ٹی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کا دفتر پونے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بنایا گیا۔ 1983ء میں دفتر کو پونے سے بنگلور منتقل کیا جہاں 1984ء میں انہوں نے پہلا کمپیوٹر اور لینڈ لائن فون حاصل کیا۔
2000ء کی دہائی میں اس کی کمپنی بھارت کی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں سے ایک بن گئی۔ 2012ء میں عالمی جریدے فوربز نے اسے 12 عظیم کاروباری شخصیات کی لسٹ میں شامل کیا۔ آج وہ بھارت کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں سے ایک کا مالک ہے اور دنیا اسے نریانا مورتھی کے نام جانتی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ دونوں ملک ایک ساتھ آزاد ہوئے، ایک کی صرف آئی ٹی کی برآمدات 194 ارب ڈالرز پر پہنچ چکی ہیں جبکہ دوسرے کی تقریباً 2 ارب ڈالرز ہیں۔ المناک پہلو یہ ہے کہ ہماری پوری معیشت کا حجم 350 ارب ڈالرز ہے جبکہ بھارت کی معیشت کا حجم 3 ٹریلین ڈالرز سے زائد ہوچکا ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو ہماری صرف آئی ٹی کی برآمدات 25 ارب ڈالر ہونی چاہیے تھیں اور اگر ایسا ہوتا تو ہمیں ایک ارب ڈالرز کے لیے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے پڑتے۔
کسی بھی شعبے میں کامیابی ایک دن میں نہیں مل جاتی۔ ہم نے 1980ء، 1990ء اور 2000ء کی دہائی میں جدید دور کے تقاضوں سے منہ موڑے رکھا، ہماری تمام توانائیاں سیاسی عدم استحکام کی نذر ہوگئیں جبکہ جن شعبوں نے ترقی کی وہ صرف بینکنگ اور پراپرٹی سیکٹر ہیں۔ ان شعبوں میں ترقی کے چند مثبت اثرات کے ساتھ کئی منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ یہ انہیں منفی اثرات کا ثمر ہے کہ اب کسی نئے کاروبار کا ’اچھوتا خیال‘ سوچنے کی بجائے ہر شخص اچھی لوکیشن کا کارنر پلاٹ ’اڑانے‘ کی کوشش میں لگا دکھائی دیتا ہے۔ غلط ڈگر پر معیشت کے سفر کی پاداش میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ تو نہ آسکا مگر ہم نے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں ڈال دیے۔
جب دنیا دوہائی دے رہی تھی کہ آنے والا دور کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا ہے تو ہم سر کے نیچے بازو دیے سوتے رہے۔ دوسری طرف ہمارے ہمسائے بھارت نے اپنی آزادی کے ایک عشرے بعد ہی جان لیا تھا کہ آنے والے ادوار ٹیکنالوجی کے ہیں اور اسی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے بھارت نے 1960ء کی دہائی میں ’بھابھا کمیٹی‘ کی سفارشات پر عمل کیا اور بھارت میں آئی ٹی انڈسٹری کے قیام کا 10 سالہ منصوبہ تشکیل دیا۔
اسی سلسلے میں 1967ء میں ہی بھارت کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی ’ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز‘ کا آغاز ہوگیا۔ 1991ء میں بھارت نے ’سوفٹ وئیر ٹیکنالوجی پارکس‘ کے نام سے ایک اہم ادارہ قائم کیا جس نے ملک میں آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 2001ء، 2002ء میں جب یورپی ممالک اور بھارت کے درمیان آئی ٹی کے میدان میں معاونت کے معاہدے ہوئے تو اس نے بہت کچھ بدل دیا۔ وہی بھارت جس کی برآمدات 2001ء میں صرف 60 ارب ڈالرز تھیں، دو دہائیوں میں تقریباً 770 ارب ڈالر پر پہنچ چکی ہیں جن میں سے خدمات کے شعبے میں 340 ارب ڈالرز سے زائد جبکہ آئی ٹی کی برآمدات 194 ارب ڈالرز ہیں۔
اب ہمارے ذہنوں میں سوال اُبھرتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنے ہمسائے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ کامیابی سمیٹ سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اگر صرف پنجاب کی ہی بات کی جائے تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود مڈل اسکولوں میں سائنس اور کمپیوٹر لیب کا نام و نشان نہیں۔ 2021ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ایک ہزار 227 مڈل اسکولوں کو اَپ گریڈ کرکے ہائی اسکول بنادیا گیا ہے مگر وہاں نہ تو ہائی اسکول کے اساتذہ ہیں اور نہ کمپیوٹر یا سائنس لیب ہیں۔ پنجاب کے جن اسکولوں میں 2018ء کے بعد اساتذہ بھرتی نہیں ہوئے، ان اسکولوں میں تدریسی عمل کا کیا حال ہوگا یہ آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں۔
دوسری جانب چند بڑے نجی اسکولوں میں کمپیوٹر لیبز تو ہیں مگر وہاں اکثر کمپیوٹر کی کتاب پڑھا دی جاتی ہے اور عملی طور پر بچوں کو کوئی اسکلز نہیں سکھائے جاتے۔ اب آن لائن کام کرنے کی اہمیت واضح ہونے پر بچے پرائیویٹ اداروں میں بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ دہائی میں آنے والی حکومتوں نے آئی ٹی انڈسٹری کی بہتری کے لیے کام کیا ہے اسی لیے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی برآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت جس دگر گوں حالت میں ہے اگر اسے جلد از جلد ’آئی سی یو‘ سے باہر لا کر مضبوط کرنا ہے تو اس کے لیے ہمارے فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ آئی ٹی انڈسٹری پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ اس میدان میں ہمارے نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت ہے۔
تمام بے روزگار نوجوانوں کو ہنر سکھایا جائے۔ اسکول، کالجز اور جامعات میں طلبا کو سکلز بیس تعلیم دی جانی چاہیے۔ چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والا طالب علم ہو اسے 3 ماہ سے ایک سال کی ٹریننگ دےکر اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ اگر ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تو ہم آئندہ 5 سالوں میں اس بھنور سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انشااللہ!