عام انتخابات میں کسی قسم کی تاخیر کے وفاق پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے، رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف خبردار کیا ہے جو کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں ہونے ہیں۔
سینیٹر رضا ربانی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئینی مدے میں عام انتخابات کے انعقاد میں کسی قسم کی بھی تاخیر کے وفاق پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے نتائج کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر ہوگی، کیا اسے اپنے آئینی مینڈیٹ کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام نہیں کرنا چاہیے۔
سینیٹر رضا ربانی کا ایسا بیان حال ہی میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد سامنے آیا ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اب قومی اسمبلی کو تحلیل ہوئے چھ دن ہوچکے ہیں اور آئین 1973 کے آرٹیکل 224 کے تحت 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کے آئینی تقاضے پر تمام نظریں ہیں۔
سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کوئی جامع بیان جاری کیوں نہیں کیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر انتخابات کے انعقاد اور ڈجیٹل مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے لیے درکار وقت کا تعین کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اس کو معمول کا معاملہ نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس کے سامنے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو مقدم رکھنا چاہیے جہاں صوبائی عام انتخابات میں تاخیر کی گئی ہے۔
عام انتخابات میں تاخیر کا خوف
آئین میں کہا گیا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کر لیتی ہے تو انتخابات 60 دنوں میں کرائے جائیں گے، لیکن قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں یہ مدت 90 دن تک بڑھا دی جاتی ہے۔
تاہم کچھ روز قبل قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے کہا تھا کہ عام انتخابات فروری میں ہوں گے۔
سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے کہ عام انتخابات میں 90 دن کے مقرر وقت سے بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔
جیو نیوز کے ایک پروگرام میں جب رانا ثنااللہ سے پوچھا گیا کہ کیا 2023 میں انتخابات ہوں گے، تو انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ بالکل سیدھا جواب ہے، نہیں‘۔
انہوں نے ایک اور پروگرام میں بات کرتے ہوئے بھی یہی کہا تھا کہ میں مستقبل کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن اگر 90 دن 120 دنوں میں بدل جائیں تو اس کے لیے واضح آئینی دلیل موجود ہے۔
علاوہ ازیں امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے نشادہی کی تھی کہ عام انتخابات نومبر میں ہونے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ تکنیکی بنیادوں پر تاخیر کا امکان ہے مگر ایک دو ماہ سے زیادہ نہیں، اور اس میں کوئی اولین مقصد نہیں ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 2023 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری کے بعد، ڈان کی ایک رپورٹ میں ای سی پی کے ایک سینئر عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کمیشن اب قانونی طور پر نئی حلقہ بندی کرنے کا پابند ہے، جس میں کم از کم چار ماہ لگیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ آئینی تقاضا ہے اور ہمیں یہ کرنا ہو گا، تفصیلات کمیشن کی طرف سے ایک میٹنگ میں رکھی جائیں گی جو کہ سرکاری اطلاع موصول ہونے کے بعد منعقد کی جائے گی۔
رپورٹ میں ایک اور اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ای سی پی کو انتخابی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنے اور دیگر متعلقہ اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہوگی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوری مشق اگلے سال مارچ یا اپریل تک ملتوی کی جا سکتی ہے۔