• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

گیس سیکٹر کے گردشی قرضوں میں کمی کا منصوبہ آئی ایم ایف کو پیش

شائع August 12, 2023
منظوری کے بعد رواں سال کی چند سہ ماہیوں میں اس منصوبے کا نفاذ بتدریج کیا جائے گا—تصویر: رائٹرز
منظوری کے بعد رواں سال کی چند سہ ماہیوں میں اس منصوبے کا نفاذ بتدریج کیا جائے گا—تصویر: رائٹرز

پاکستان نے گیس کے شعبے کے گردشی قرضوں میں کمی کا ایک منصوبہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بھیجا ہے جہاں یہ گرشی قرضے اب 16 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ مجوزہ منصوبہ نان کیش بک ایڈجسٹمنٹ اور ٹیرف ریشنلائزیشن کا مرکب ہے جسے آئی ایم ایف کی رضامندی کے بعد لاگو کیا جاسکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے میں تبدیلی کا انحصار آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی رائے پر ہے اور رواں سال کی چند سہ ماہیوں میں اس کا بتدریج نفاذ کیا جائے گا۔

4 اگست کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی زیرِصدارت ایک اجلاس میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی اور آئی ایم ایف کے ساتھ اس منصوبے کا اشتراک کیا گیا تھا، یہ منصوبہ گیس کے شعبے میں گردشی قرضے میں کمی کے ذریعے توانائی کے شعبے میں پائیداری کے حصول، ملک کے معاشی اشاریوں کو بہتر بنانے اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گا۔

منصوبے کے مسودے کے تحت وفاقی حکومت سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کو گیس کی پیداوار کی حامل آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹیڈ (او جی ڈی سی ایل) اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ( پی پی ایل) اور گورنمنٹ ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ (جی ایچ پی ایل) کو بقایاجات کی ادائیگی کی مد میں سپلیمنٹری گرانٹس کے ذریعے تقریباً 414 ارب روپے کے فنڈز دے گی۔

ان فنڈز میں سے سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیاں، او جی ڈی سی ایل پر تقریباً 225 ارب روپے، پی پی ایل پر 62 ارب روپے اور جی ایچ پی ایل پر 127 ارب روپے کی واجب الادا ادائیگیاں کریں گے، اس کے علاوہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل اپنے طور پر اور کچھ سرمایہ کاری بانڈز کو جزوی طور پر ختم کر کے تقریباً 56 ارب روپے کا بندوبست کریں گے۔

او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور جی ایچ پی ایل پھر وفاقی حکومت کو فراہم کردہ فنڈز کے بدلے میں تقریباً 475ارب روپے کا ڈیویڈنڈ فراہم کریں گی جس کا تخمینہ 30 جون 2022 تک تقریباً ساڑھے 14 کھرب روپے لگایا گیا ہے، حکومت کے پاس اس وقت جی ایچ پی ایل میں 100 فیصد، او جی ڈی سی ایل میں 85 فیصد جبکہ پی پی ایل میں 75 فیصد حصص ہیں۔

اس بک ایڈجسٹمنٹ کے مجموعی نتیجے کے طور پر جس کے تحت حکومت 414 ارب روپے فراہم کرے گی اور ڈیویڈنڈ کی آمدنی میں 475 ارب روپے واپس لے گی، گیس سیکٹر کے مجموعی گردشی قرضے تقریباً 543 ارب روپے تک کم ہوں گے۔

225 ارب روپے کے منصوبے کا دوسرا حصہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے گیس کے نرخوں میں تقریباً 45 سے 50 فیصد تک اضافے کے فیصلے پر عمل درآمد ہے، اوگرا نے 2 جون کو سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کی 24-2023 کی آمدن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا مسودہ حکومت کو بھجوا دیا تھا، تاہم اوگرا قانون کے تحت مطلوبہ 40 دن کے اندر نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے پی ڈی ایم حکومت نے اس پر عمل درآمد روک دیا۔

دونوں کمپنیوں کے ریونیو کی ضروریات کے بارے میں دو الگ الگ فیصلوں میں اوگرا نے حکومت سے کہا کہ وہ یکم جولائی 2023 سے سوئی ناردرن کی اوسط فروخت کی شرح میں 50 فیصد یعنیٰ ہر 10 لاکھ میں 415 روپے سے ایک ہزار 239 روپے برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) تک کا اضافہ کرے۔

اسی طرح اوگرا نے سوئی سدرن کمپنی کے لیے گیس کے اوسط نرخوں میں 45 فیصد اضافہ کرکے ایک ہزار 351 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردیا، جس سے 417 روپے فی یونٹ کا اضافہ ظاہر ہوا۔ اس سے رواں مالی سال کے دوران سوئی ناردرن کو تقریباً 121 ارب روپے کے اضافی فنڈز جبکہ سوئی سدرن کو 105 ارب روپے کے اضافی فنڈز درکار تھے۔

تقریباً نو ماہ کے لیے 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے ایک حصے کے طور پر آئی ایم ایف کو دیے گئے حلف نامے کے تحت، پی ڈی ایم حکومت نے آخری صارف کے لیے گیس کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے اصلاحات کا وعدہ کیا تھا جو بالآخر بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گی۔

وزارت خزانہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم گیس کے شعبے میں اپنی اصلاحاتی کوششوں کو بھی تیز کررہے ہیں جسے غیر پائیدار گردشی قرضوں کی ڈائنامکس اور فوری لیکویڈیٹی پریشر کا سامنا ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے وسیع گیس سیکٹر میں گردشی قرضوں کے ذخائر میں کافی اضافہ ہوا ہے اور لیکویڈیٹی کی رکاوٹوں کی وجہ سے گیس کی قلت میں اضافہ ہوا ہے جس کا بجلی کے شعبے میں تیزی سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024