• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

’ریویو ایکٹ کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا نواز شریف کی نااہلی پر اثر نہیں پڑے گا‘

شائع August 11, 2023
— فائل فوٹو: ڈان نیوز
— فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی کی درخواست کے دائرہ کار کو بڑھانے سے متعلق ’ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023‘ کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کرنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے فیصلے کا مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

عدالت عظمٰی کی جانب سے ایکٹ سے متعلق فیصلہ سامنے آنے کے فوری بعد نجی نیوز چینل ’جیو‘ سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن ) کے سینئر رہنما سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے فیصلے کو بدقسمتی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اچھی روایت نہیں ہے کہ عدالتیں بار بار پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت کریں اور ایسے فیصلے دیں جس سے اس کی آزادی کو نقصان پہنچے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فیصلہ نواز شریف کی متوقع واپسی میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے تو اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں۔

انہوں نے الیکشنز ایکٹ میں کی گئی ترمیم کا حوالہ دیا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ متفقہ طور پر منظور شدہ قانون سازی کی طرح ہے، ترمیم نے اراکین اسمبلی کی نااہلی کو 5 سال تک محدود کر دیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر نے دلیل دی کہ نااہلی کی مدت میں توسیع کسی شخص کے سیاست میں حصہ لینے کے بنیادی حقوق کو متاثر کرے گی، کیونکہ سیاست میں حصہ لینا، عوام میں جانا، عوام سے ووٹ مانگنا بنیادی حقوق ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے زور دے کر کہا کہ نواز شریف اور دیگر وہ افراد جو صرف آرٹیکل 184 (3) کے تحت مقدمات میں نااہل ہوئے، اب پانچ سال بعد الیکشنز ایکٹ کے آرٹیکل 232 کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل ہنگامہ آرائی کے درمیان سینیٹ سے منظور ہوا تھا، انہوں نے اصرار کیا کہ یہ قانون مخصوص شخصیات کے لیے خاص نہیں تھا، صرف میاں نواز شریف صاحب کے لیے نہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کے فائدے کے لیے تھا تاکہ انصاف فراہم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے اس فیصلے کا نواز شریف صاحب کے کیسز پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

سابق وزیر قانون نے روشنی ڈالی کہ فیصلے کے وقت نے ایک تاثر پیدا کیا کہ اس پیش رفت کو پارلیمنٹ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھانا سمجھا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے کا اعلان قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد کیا گیا، یعنی قانون کو واپس نہیں بھیجا جاسکتا، اور پارلیمنٹ فوری طور پر اسے دوبارہ نافذ نہیں کر سکتی۔

محفوظ فیصلہ سنانے کیلئے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا، عرفان صدیقی

ان کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے فیصلے پر رد عمل میں کہا کہ ریویو ایکٹ 2023 کا محفوظ شدہ فیصلہ سنانے کے لیے صرف اس لیے 53 دن انتظار کیا گیا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے۔

سماجی رابطے کی ویب پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے واردات بن جائیں تو پاکستان کی عدلیہ کا عالمی انڈیکس میں 130ویں نمبر پر آنا حیرت کی بات نہیں۔

قانون سازی کے اختیار میں مداخلت ناقابل قبول ہے، سعد رفیق

ادھر سابق وفاقی وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے، اس میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جو بینچ فیصلہ کرے وہی ریویو سنے کا اصول انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بینچز کی تشکیل کے لیے فرد واحدکے اختیار نے عدل کو بارہا پامال کیا، آج کے فیصلے کا ریویو آئندہ پارلیمنٹ ہی میں ہوگا۔

سابق وزیر میاں جوید لطیف نے کہا کہ رویو آف ججمنٹ ایکٹ کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دینا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اس طرح کے سب فیصلے منصوبہ بندی سے مخصوص بینچ سے ہی آتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے رد عمل میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی واپسی سےکچھ لوگ اتنے خوفزدہ ہیں کہ نواز شریف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بارودی سرنگیں بچھانے کا سلسلہ رکنے کے بجائے تیز ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کی سماعت کرتے ہوئے 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج جاری کیا گیا۔

عدالت عظمٰی کی جانب سے سپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس قانون کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ریویو آف ججمنٹ ایکٹ آئین پاکستان سے متصادم ہے، قانونی اسکیم کے مطابق لیجسلیشن کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024