ملازمہ تشدد کیس: سول جج کی اہلیہ کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد
13 سالہ گھریلو ملازمہ کے تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی گئی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیا عاصم کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت میں درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران وکیلِ صفائی قاضی دستگیر اور وکیل استغاثہ فیصل جٹ عدالت میں پیش ہوئے، پراسیکیورٹر وقاص حرل اور متاثرہ بچی کے والدین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
مدعی کی جانب سے نئے وکیل فیصل جٹ نے وکالت نامہ عدالت میں جمع کروایا، انہوں نے عدالت سے مخاطب کوتے ہوئے کہا کہ مجھے درخواستِ ضمانت پر دلائل تیار کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔
تاہم جج شائستہ کنڈی نے استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نہیں، وقت کی ضرورت نہیں، آج ہی دلائل دینے ہیں، دریں اثنا انہوں نے درخواستِ ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی۔
قاضی دستگیر نے عدالت سے استدعا کی کچھ دستاویزات فراہم کرنے کے لیے درخواست دے رہا ہوں، سرگودھا میں جو رات 3 بجے طبی معائنہ ہوا اس کی طبی رپورٹ چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سرگودھا والی طبی رپورٹ پڑھی جو ریکارڈ میں لگی ہوئی ہے، اس رپورٹ کے مطابق سومیا عاصم کے خلاف ایف آئی آر میں دفعات میں اضافہ کردیا گیا۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی والدین کے حوالے کب ہوئی، وکیل صفائی نے جواب دیا کہ اسکائی وے اڈے پر 8 بجے 23 جولائی کو بچی کو والدین کے حوالے کیا گیا، ایف آئی آر کے مطابق بچی رات 3 بجے سرگودھا ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچی، رات 3 بجے کی ہسپتال پہنچنے پر میڈیکل رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی، سومیا عاصم کے خلاف درج مقدمے میں وقتِ وقوع نامعلوم لکھا ہوا ہے۔
عدالت نے قاضی دستگیر کو ایف آئی آر پڑھنے کی ہدایت دی، قاضی دستگیر نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر بھی ایک ویڈیو دیکھی، اس میں دیکھا جاسکتا ہے بچی کو صحیح سلامت حوالے کیا گیا، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچی ڈھائی گھنٹے بس اسٹینڈ پر بیٹھتی ہے، خود پانی پیتی ہے، گاڑی سے خود گاڑی کا دروازہ کھول کے نکلتی ہے، اگر بچی کو کیڑے پڑے تھے تو جب وہ بس اسٹینڈ پر پہنچی تو کیڑے کہاں گئے؟
دوران سماعت نجی بس اسٹینڈ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کمرہ عدالت میں دکھائی گئی، پراسیکیوشن نے بتایا کہ ڈھائی منٹ کی ویڈیو فرانزک کے لیے بھیجی گئی ہے۔
قاضی دستگیر نے مزید کہا کہ بچی 7 مہینے کے بعد مل رہی ہے لیکن والدہ نے بچی کو چیک تک نہیں کیا، اس پر جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ فوراً کون چیک کرتا ہے، پہلے تو بچی کو لیا جاتا ہے۔
جج نے بچی کی والدہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بچی اسکارف کرتی ہے؟ بچی کی والدہ نے جواب دیا کہ نہیں میری بچی اسکارف نہیں پہنتی، منہ چھپانے کا مقصد زخم کو چھپانا تھا۔
جج نے بچی کی والدہ سے استفسار کیا کہ آپ کی گاڑی میں کیا بات ہوئی تھی، کیا آپ 10 منٹ گاڑی میں بیٹھی تھیں؟ جواب میں بچی کی والدہ نے کہا کہ جی بیٹھی تھی اور کام کے حوالے سے بات ہوئی تھی، مجھے کہا گیا کہ بچی کام نہیں کرتی، میں نے بچی سے پوچھا کیوں نہیں کرتی کام؟ لیکن بچی خاموش رہی، ڈرائیور نے دھمکی بھی دی کہ ہم بڑے لوگ ہیں، میں فوراً ڈر گئی۔
اس پر پراسیکیورٹر وقاص حرل نے کہا کہ اپنی طرف سے سوچ بنا کر تو دلائل نہ دیں، جج نے ریمارکس دیے کہ میں سب کچھ ریکارڈ پر لاؤں گی، یہاں صرف انصاف ہوگا۔
وکیل صفائی قاضی دستگیر نے کہا کہ بقول رضوانہ کے تشدد 5 بجے ہوا، بس اڈے پر 8 بجے حوالے کیا گیا، 6 گھنٹے 12 منٹ کی کوئی طبی رپورٹ نہیں، زخم اسی دوران دیے۔
جج شائستہ کنڈی نے قاضی دستگیر سے استفسار کیا کہ بچی کو کس نے زخم دیے؟ قاضی دستگیر نے جواب دیا کہ اس کہانی میں نہیں جاتے، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، کچھ نہیں لکھا گیا کہ زخم کتنے پرانے ہیں، مقدمے کے مطابق سرگودھا کے ہسپتال نے فورا لاہور بھیج دیا گیا، سومیا عاصم کے خلاف 6 روز بعد مقدمے میں دفعہ 324 ڈالی گئیں۔
دوران سماعت قاضی دستگیر کی جانب سے سرگودھا والی طبی رپورٹ مہیا کرنے کی استدعا کی گئی، انہوں نے مزید کہا کہ 7 ماہ حبس بے جا میں رکھنے کا الزام ہے، والدہ نے تو بچی سے فون پر بھی بات کی، معلوم نہیں والدہ کس کے ساتھ فون پر ڈھائی گھنٹے بات کرتی رہیں، ویڈیو کے مطابق بچی کی والدہ مسلسل ڈھائی گھنٹے موبائل فون پر رہتی ہیں، کسی کی بچی اتنی زخمی ہو تو وہ مسلسل موبائل فون پر کیسے رہ سکتا ہے۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی زخمی تو ہے نا زخمی کس نے کیا؟ قاضی دستگیر نے جواب دیا کہ بچی کی والدہ نے ویڈیو پر بیان دیا جو ریکارڑ پر موجود ہے، دیہات میں دیکھا جا سکتا ہے خواتین ملتانی مٹی کھایا کرتی ہیں، بچی مٹی کھانے کی عادی تھی، پودوں میں کھاد دی گئی اور بچی نے وہ مٹی کھائی جس کی وجہ سے بچی کو دانے نکلے لیکن بچی کو والدین کو صحیح سلامت حوالے کیا گیا۔
جج شائستہ کنڈی نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟ ایسی کوئی بات نہ کریں جس کا ثبوت آپ کے پاس موجود نہیں، آپ قانونی حوالے دیں، قانون کیا کہتا ہے؟
وکیلِ صفائی قاضی دستگیر نے جواب دیا کہ مقدمے میں مٹی کھانے کا ذکر نہیں، اس کو زہر کا تاثر دیا جارہا ہے، بچی کے ساتھ کوئی خاتون ایسا تشدد کیسے کرسکتی ہے؟ کوئی سوچ بھی کیسے سکتا؟ میڈیا پر کالے زخم دکھائے جارہے، ہم خاموش ہیں، بچی طورخم بارڈر پر سول جج کی فیملی کے ساتھ انجوائے کرتی رہی ہے، میرے پاس تصاویر ہیں۔
اس پر جج نے وکیلِ صفائی سے استفسار کیا کہ کیا تصاویر موجود ہیں؟ جواب میں قاضی دستگیر نے کہا کہ میرے پاس تصاویر ابھی موجود نہیں، لا دوں گا، بچی سومیا عاصم کے پاس ملازمت پر نہیں تھی۔
اس پر جج نے استفسار کیا کہ 2 روز قبل سومیا عاصم نے عدالت میں کہاکہ بچی کو پیسے دیتی رہی، جواب میں وکیل صفائی نے کہا کہ امریکا میں زنیرا نامی عورت امداد بھجواتی تھی، وہی بچی کے والدین کو دیتے تھے، رضوانہ کے والدین کے پاس کوئی گھر نہیں تھا، 10، 10 ہزار امداد سومیا بھی دیتی تھیں۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ گھر میں کیوں بچی کو رکھا ہوا تھا؟ جواب میں قاضی دستگیر نے کہا کہ شادی پر ملاقات ہوئی، فیصلہ ہوا کہ 3، 3 بچیاں لے کر جائیں گے اور امداد دیں گے۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ بچی کو کسی اسکول میں داخل کروایا ہوا تھا؟ جواب میں وکیل صفائی نے کہا کہ بچی کی عمر زیادہ ہوچکی ہے، 16 سال عمر ہے، اسکول میں داخل نہیں تھی، بچی کو قاری صاحب بھی آکر گھر میں قرآن پڑھاتے تھے، فلاحی نیت سے رکھی ہوئی تھی۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا کوئی دستاویزات ہیں کہ بچی کو امداد دی جاتی تھی؟ وکیل صفائی قاضی دستگیر نے کہا کہ میرے پاس کوئی دستاویزات نہیں، فلاحی کام کا مثالی کیس ہے۔
جج شائستہ کنڈی نے قاضی دستگیر کے دلائل دہراتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی کہہ رہے ہیں کہ فلاحی کام کا مثالی کیس ہے، آپ بار بار زبانی باتیں کر رہے ہیں، 50 ہزار روپے کیوں بھیجے؟ جواب میں قاضی دستگیر نے کہا کہ صاف سی بات ہے، سومیا عاصم کو بلیک میل کیا گیا۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ ایک جج کیسے بلیک میل ہوا، قاضی دستگیر نے جواب دیا کہ جج بھی انصاف حاصل نہیں کر پارہا۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ کیوں؟ ہم نے 2 روز پہلے انصاف فراہم نہیں کیا، قاضی دستگیر نے جواب دیا کہ سومیا عاصم اور امریکا میں رہنے والی زنیرا کا معاملہ ہے۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ سومیا عاصم یا زنیرا کا معاملہ تو نہیں، کوئی فلاحی کام کا معاہدہ تھا؟ قاضی دستگیر نے کہا کہ فلاحی کام کے دستاویزات موجود نہیں، صرف زبانی باتیں ہیں۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی قاضی دستگیر نے تمام زبانی کلامی باتیں کی ہیں، مفروضے بنائے، واقعہ ایک دن کا نہیں، ایک سیریز پر مبنی واقعات ہوئے ہیں، بچی سول جج کے گھر میں تھی اور اس کو مان بھی لیا گیا۔
جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ سول جج کے گھر میں بچی تھی لیکن زخموں کو تاحال نہیں مانا گیا، پراسیکیورٹر وقاص حرل نے کہا کہ سرگودھا کے سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی ہمیں معلوم ہے۔
جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ جب مریض ایمرجنسی میں جاتا ہے تو ہسپتال کی سلپ بن جاتی ہے، وقاص حرل نے کہا کہ کہا گیا کہ 6 گھنٹے کا وقت کہاں گزارا گیا، رضوانہ کے والدین انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہسپتال والے پولیس کو کال کرتے ہیں، والدین کال نہیں کرتے، گزشتہ سماعت پر میرے سے بھی غلطی ہوئی اور میرے فاضل دوست سے بھی غلطی ہوئی، رپورٹ کے مطابق انجریز 14 نہیں 17 ہیں۔
اس پر وکیل صفائی قاضی دستگیر نے اعتراض کیا کہ یہ انجریز کی تعداد بعد میں بڑھائی گئیں، اس پر پراسیکیوٹر وقاص حرل نے کہا کہ باقی سب تو رشتےدار ہیں ایک نیوٹرل بندے کا بھی بیان ریکارڈ پر موجود ہے، بس کے ڈرائیور کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔
جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ اس کا بیان کیا ہے؟ پراسیکیوٹر وقاص حرل نے جواب دیا کہ بیان میں ڈرائیور نے کہا ایک بچی زخمی حالت میں تھی، ایک عورت اور 2 مرد بچی کو لے کے گاڑی میں سوار ہوئے۔
دریں اثنا پراسیکیورٹر وقاص حرل نے گواہان کی لسٹ عدالت کو فراہم کردی، انہوں نے کہا کہ سول جج کے گھر 4 سال سے ایک استاد ٹیوشن پڑھانے آرہا ہے، گھر میں آنے والے استاد نے کہا دیگر بچوں کو پڑھایا لیکن رضوانہ کو کبھی نہیں پڑھایا، تمام زخموں کے لیے ریڈیولوجسٹ اور دیگر ماہرین کو بھیجا گیا، رضوانہ کی انجریوں کی تفصیلات لینی تھیں اس لیے طبی ماہرین کو معاملہ بھیجا گیا، مقدمے میں درج گواہان والد، والدہ اور ماموں کا بیان موجود ہے، رضوانہ کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جو سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریکارڈ میں رضوانہ کی تصاویر بھی موجود ہیں، انجریوں کی نوعیت دیکھی جا سکتی ہے، وکیلِ صفائی کی جانب سے دی گئی ویڈیو کو فرانزک کے لیے بھیجا جانا چاہیے، سی سی ٹی وی میں بچی کی حالت عیاں ہے، مشکل سے لیٹی ہوئی ہے، سومیا عاصم کےخلاف تو ناقابلِ ضمانت دفعات لگی ہوئی ہیں۔
پراسیکیورٹر وقاص حرل نے طاہرہ بتول کیس کا حوالہ دے کر درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی، انہوں نے کہا کہ سومیا عاصم کی جانب سے بے دردی سے جرم کیا گیا ہے۔
دریں اثنا عدالت نے پراسیکیوٹر سے مختلف عدالتی فیصلوں کی کاپیاں جمع کروانے کی ہدایت کردی، جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ میں 2 بجے سومیا عاصم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سناؤں گی، آپ سرکاری وکیل ہیں، ایک ہی دلائل دیتے ہیں، کاپیاں تو آپ کے پاس ہونی چاہئیں۔
مدعی وکیل فیصل جٹ نے کہا کہ ویڈیو دیکھی گئی، تمام نظریں کیس پر ہیں، ابھی بات لگی کہ عدالت نے کہا سول جج کی اہلیہ ہیں لیکن انصاف ملےگا، والدین عدالت میں موجود ہیں، رو رہے ہیں، جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں زخم نہ ہوں۔
فیصل جٹ نے سومیا عاصم کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے مزید کہا کہ پورا معاشرہ رضوانہ کے کیس سے پریشان ہے، سومیا عاصم سے آلہ تشدد بھی برآمد کرنا ہے۔
دریں اثنا فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سومیا عاصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں مجسٹریٹ شائستہ کنڈی نے دوپہر 2 بجے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سومیا عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی۔
سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل
دوسری جانب مذکورہ کیس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (ایس جے آئی ٹی) نے واقعے کی تحقیقات اور حقائق کی جانچ کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس ذرائع نے بتایا کہ ایس جے آئی ٹی نے سیف سٹی، چونگی نمبر 26 کے بس ٹرمینل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال سرگودھا سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں اور ان کا جائزہ لے رہی ہے۔
قبل ازیں 6 اگست کو ملزمہ سومیا عاصم (سول جج کی اہلیہ) پولیس آپریشن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے دفتر میں ایس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا، ذرائع نے بتایا کہ ملزمہ نے ایف آئی آر کے متن سے متضاد بیانات دیے اور دعویٰ کیا کہ وہ من گھڑت ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ بچی کے گھر والے زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں ملزمہ کے گھر آئے، ان سے ملے اور پھر بچی کو سرگودھا لے گئے جبکہ جج کی اہلیہ نے اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ خود لڑکی کو چونگی نمبر 26 کے بس ٹرمینل پر لے کر گئی تھیں اور اسے اس کے گھر والوں کے حوالے کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں ملزمہ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں اپنی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایس جے آئی ٹی نے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے میں پولیس کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا، جسے ملزمہ نے آسانی سے حاصل کر لیا، تاہم ملزمہ کی جانب سے پیش کردہ فوٹیج کو ایڈٹ کیا گیا تھا اور اس میں وہ ریکارڈنگز موجود تھیں جو اس کے حق میں تھیں۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق (جسے ملزمہ نے چیلنج کیا تھا) ایس جے آئی ٹی نے ضمنی بیانات سمیت کیس فائل کی جانچ کی، ضمنی بیانات میں سے ایک کے متن میں کہا گیا کہ بچی کے والدین نے ملزمہ کے اہل خانہ سے کہا تھا کہ وہ بچی کو بس ٹرمینل پر چھوڑ دیں، جبکہ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بچی کو اس کے گھر والے ملزمہ کے گھر سے لے کر گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ایس جے آئی ٹی نے ملزمہ سے پوچھ گچھ کی جس کے دوران اس نے گھریلو ملازمہ پر تشدد کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ اس نے کئی بار اسے اپنے گھر جانے کو کہا اور اسے وہاں چھوڑ کر آنے کی بھی پیشکش کی لیکن ہر بار لڑکی نے انکار کیا اور جب بھی اس بارے میں بات ہوتی تھی تو لڑکی رونا شروع کر دیتی تھی۔
اس نے ایس جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ گھریلو ملازمہ نے یہ کہہ کر اس کے گھر جانے سے انکار کردیا کہ اس کی ماں نے اسے مارا۔
بچی کے زخمی ہونے سے متعلق سوال پر ملزمہ نے دعویٰ کیا کہ وہ خود زخمی ہوئی ہے اور ان میں سے کچھ زخم اس بچی کے خود کو دیوار سے ٹکرانے کے بعد لگے ہیں۔
ایس جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ ملزمہ حقائق کو چھپا رہی تھی اور پوچھ گچھ کے دوران اس کے دعوے مشکوک پائے گئے۔
عدالت نے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، ذرائع نے بتایا کہ قانونی پریکٹس کے مطابق خاتون ملزماؤں کو صرف دہشت گردی اور قتل کے مقدمات میں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پوچھ گچھ تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور ایس جے آئی ٹی شواہد اکٹھے کرکے ان کی جانچ کررہی ہے۔
دریں اثنا ہسپتال میں داخل گھریلو ملازمہ کی حالت بہتر ہونے کے بعد اسے آئی سی یو سے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ تفتیش کاروں کو امید ہے کہ وہ اگلے ہفتے تک سفر کرنے کے قابل ہوجائے گی۔
ڈاکٹروں کی اجازت کے بعد اسے اسلام آباد لایا جائے گا اور بیان ریکارڈ کرانے کے لیے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔