• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

سائفر کا مبینہ متن شائع، عمران خان کے دورہ روس کے بعد امریکی دباؤ کا اشارہ

شائع August 10, 2023
سائفر کا متن مستند ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہ ہوسکی — فائل فوٹو: رائٹرز
سائفر کا متن مستند ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہ ہوسکی — فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی نیوز ویب سائٹ نے امریکا میں سابق پاکستانی سفیر کی جانب سے اسلام آباد بھیجے گئے اس سفارتی مراسلے (سائفر) کا مبینہ متن شائع کردیا جسے سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس اپنے اقتدار کے خاتمے کے لیے ’امریکی سازش‘ کا ثبوت قرار دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ سائفر میں امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کا احوال تھا، اس میں جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر اسد مجید خان موجود تھے، گزشتہ روز ’دی انٹرسیپٹ‘ نامی امریکی نیوز ویب سائٹ نے اس سائفر کا مبینہ متن شائع کردیا۔

اس بات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہ ہوسکی کہ امریکی نیوز ویب سائٹ کی جانب سے شائع کردہ سائفر کا متن واقعی مستند ہے یا نہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ دفتر خارجہ کی جانب سے مبینہ لیکس پر تبصرہ نہیں کیا جاتا، تبصرے کے لیے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے سائفر کے شائع شدہ مذکورہ متن کی تصدیق کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مندرجات میں امریکا کی جانب سے ایسے کسی مؤقف کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ پاکستان کی قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے۔

سائفر کے مذکورہ متن کے مطابق امریکا نے یوکرین جنگ کے تناظر میں عمران خان کی خارجہ پالیسی پر اعتراض کیا تھا۔

’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے سائفر کے شائع کردہ مبینہ متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے یوکرین تنازع پر پاکستان کے مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں (امریکا) اور یورپ کے لوگ اس بات پر کافی پریشان ہیں کہ پاکستان (یوکرین کے معاملے پر) اس قدر جارحانہ انداز میں غیرجانبدارانہ مؤقف کیوں اختیار کر رہا ہے، یہ ہمیں اتنا غیر جانبدارانہ مؤقف نہیں لگتا، ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مشاورت کے بعد بالکل واضح لگ رہا ہے کہ یہ وزیر اعظم کی پالیسی ہے۔

جواب میں اسد مجید خان نے کہا تھا کہ یہ صورتحال کا درست مشاہدہ نہیں ہے، یوکرین کے بارے میں پاکستان کا مؤقف انٹر ایجنسی مشاورت کا نتیجہ ہے۔

سائفر کے مبینہ متن میں مزید کہا گیا کہ ’میں نے ڈونلڈ لو سے پوچھا کہ کیا امریکا کے سخت ردعمل کی وجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان کی عدم شرکت تھی؟ جواب میں انہوں نے واضح طور پر تردید کی اور کہا کہ اس کی وجہ وزیر اعظم (عمران خان) کا دورہ روس ہے‘۔

متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’میرے خیال میں اگر وزیر اعظم (عمران خان) کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو امریکا کی جانب سے سب کو معاف کر دیا جائے گا، کیونکہ دورہ روس کو صرف وزیر اعظم (عمران خان) کے ہی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، بصورت دیگر مجھے لگتا ہے کہ ساتھ آگے چلنا مشکل ہوگا۔‘

سائفر کے مبینہ متن کے یہ الفاظ بظاہر اسی دھمکی کا اشارہ دے رہے ہیں جس کا دعویٰ سابق وزیر اعظم نے کیا تھا اور اسے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی امریکی سازش قرار دیا تھا۔

ایک سینئر سفارت کار نے ڈونلڈ لو کے ریمارکس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بظاہر اس میں کوئی سازش نہیں ہے لیکن ایک امریکی عہدیدار کی جانب سے ایسے الفاظ استعمال کرنا ناقابل قبول ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو سب کو معاف کر دیا جائے گا‘۔

سائفر کے مبینہ متن میں بتایا گیا کہ اسد مجید خان نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان کا دورہ روس ایک دو طرفہ دورہ تھا اور اسے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی تائید کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

مبینہ متن کے مطابق اسد مجید خان نے یہ مؤقف بھی رکھا کہ (پاکستان میں) یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ امریکا ان تمام معاملات پر پاکستان کی حمایت کی توقع کرتا ہے جو امریکا کے لیے اہم ہیں لیکن پاکستان کے لیے تشویشناک مسائل، خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر ہمیں کوئی خاص امریکی حمایت نظر نہیں آتی۔

اسد مجید خان نے امریکی سفارت کار سے یہ سوال بھی کیا کہ ’اگر یوکرین کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف امریکا کے لیے اتنا اہم ہے تو اس نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس سے قبل پاکستان کے ساتھ بات چیت کیوں نہیں کی؟‘

اس پر ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ ’امریکا کی جانب سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے یہ اس طرح کی بات چیت کا صحیح وقت نہیں ہے اور اس کے لیے پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک ہونے تک انتظار کیا جا سکتا ہے۔‘

سائفر کے مبینہ متن کے آخری سرے پر اپنے تجزیے میں اسد مجید خان نے کہا کہ ’ڈونلڈ لو اتنے ٹھوس انداز میں تحفظات کا اظہار وائٹ ہاؤس کی واضح منظوری کے بغیر نہیں کر سکتے تھے جس کا انہوں نے بارہا حوالہ بھی دیا۔‘

اسد مجید خان نے اپنے تجزیے میں مزید کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کے داخلی سیاسی امور پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں بات کی، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور کو مناسب انداز میں ڈیمارش جاری کرنے کی ضرورت ہے۔‘

سائفر کا مبینہ متن لیک کرنے کی ’ٹائمنگ اور سورس‘ پر سوال

’دی انٹرسیپٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں یہ دستاویز (سائفر کا مبینہ متن) پاک فوج کے ایک گمنام ذرائع نے فراہم کیا ہے جس نے کہا تھا کہ ان کا عمران خان یا ان کی جماعت پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے، تاہم بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مبینہ متن کو لیک کرنے والی خود پی ٹی آئی ہو سکتی ہے۔

سائفر کا مبینہ متن شائع کرنے کے لیے یہ وقت بھی اس تناظر میں کافی اہم معلوم ہوتا ہے جب توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو بدعنوانی کے الزام میں 3 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔

پروٹوکول کے مطابق صرف چند اہم عہدیداروں کو خفیہ دستاویز تک رسائی حاصل ہوتی ہے، ان میں وزیر خارجہ، وزیراعظم اور آرمی چیف شامل ہیں۔

پہلی بار اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران عمران خان کی جانب سے سائفر کی موجودگی کے انکشاف کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں سائفر کے مندرجات کو شرکا کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں اِس سے سائفر کی اُس ایک کاپی کے بارے میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے جو وزیراعظم کو فراہم کی گئی تھی، اُن کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے مطابق عمران خان نے مبینہ طور پر اپنے پاس موجود سائفر کی کاپی گم کردی، خود عمران خان بھی اس دعوے کا اعتراف کر چکے ہیں۔

تاہم بعد ازاں عمران خان کئی انٹرویوز میں دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایسی حساس دستاویز کے لاپتا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ دفتر خارجہ میں بالکل محفوظ ہے۔

عمران خان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے، رانا ثنااللہ

دریں اثنا ’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے شائع ہونے والے سائفر کے مبینہ مندرجات کا بالواسطہ اعتراف کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگرچہ اس کہانی میں کوئی نئی بات نہیں ہے، تاہم اس معلومات یا اس کی ماخذ دستاویز کی تصدیق کے لیے تحقیقات کی ضرورت ہے، ممکنہ طور پر یہ ایک بہت ہی مذموم، غداری اور فتنہ انگیزی پر مبنی عمل ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سائفر کی ایک کاپی عمران خان کے پاس موجود تھی جو انہوں نے واپس نہیں لوٹائی اور اعلانیہ تسلیم کیا کہ ان سے وہ کاپی کھو گئی ہے، اگر عمران خان قصوروار ثابت ہو گئے تو اُن پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، امریکا

گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تصدیق کی کہ جب یوکرین پر روس کے حملے کے روز ہی سابق وزیر اعظم عمران خان روس کے دورے پر چلے گئے تھے تو امریکا نے حکومتِ پاکستان سے نجی طور پر اور بعد ازاں اعلانیہ طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے ’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے شائع کردہ سائفر کے متن کی صداقت پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تبصرے کسی بھی طرح سے یہ ظاہر نہیں کرتا کہ امریکا نے اس بارے میں کوئی مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کی قیادت کس رہنما کے پاس ہونی چاہیے، میرا خیال ہے کہ اِس سے اُن پالیسیوں کے انتخاب پر امریکی حکومت کی تشویش ظاہر ہوتی ہے جو وزیر اعظم اپنا رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی قیادت کے بارے میں اندرونی فیصلوں میں امریکا کی جانب سے مداخلت کے الزامات غلط ہیں، جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ الزامات غلط ہیں، یہ الزامات ہمیشہ سے جھوٹے تھے اور جھوٹے ہی رہیں گے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ امریکا دوسرے ممالک میں قیادت کو بے دخل کرنے کی تاریخ رکھتا ہے، لہٰذا اس تناظر میں اس سب کو کس طرح سمجھا جانا چاہیے تو میتھیو ملر نے جواب دیا کہ ’اس کو اس تناظر میں دیکھیں کہ ایک تو ان تبصروں کو سیاق و سباق سے کیسے ہٹا کر پیش کیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ لوگ اسے سیاق و سباق سے کیسے ہٹا کر پیش کرنے کی خواہش کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے کہ لوگ اس (سائفر) کا استعمال کسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کریں۔

متھیو ملر نے کہا کہ ’میرے خیال میں بہت سے لوگوں نے اسے (سائفر کو) سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔‘

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024