’حالیہ حملوں میں درجنوں پاکستانی ملوث ہیں‘ افغان طالبان کا الزام
افغانستان کے طالبان حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسلامک اسٹیٹ (داعش) گروپ کے درجنوں عسکریت پسند ملک میں حالیہ حملوں میں ملوث ہیں جن میں کچھ ہلاک ہوگئے ہیں۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی’اے ایف پی’ کے مطابق پڑوسی ملک افغانستان کا یہ ردعمل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرنے کے چند دن بعد آیا ہے، جس میں علاقائی امن اور استحکام پر منفی اثرات کا ذکر کیا گیا تھا۔
ڈان ڈاٹ کام نے افغان طالبان کے ساتھ صورتحال پر تبصرہ کرنے کے لیے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بیان سے قبل دفتر خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں گزشتہ ماہ ژوب چھاؤنی پر ہونے والے حالیہ حملے میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان میں خودکش حملوں میں اضافے پر دونوں ممالک کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے جہاں اسلام آباد کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسندوں کی افغان باشندے اکثر مدد کرتے ہیں۔
آرمی چیف اور دفتر خارجہ کے بیانات کے بعد افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آج دعویٰ کیا کہ گزشتہ سال افغانستان میں ہماری افواج کے ہاتھوں مارے گئے 18 افراد پاکستانی شہری تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ داعش کے ارکان تھے اور وہ مختلف بم دھماکوں اور حملوں میں ملوث تھے جبکہ درجنوں دیگر افغان جیلوں میں قید ہیں۔
ترجمان نے گزشتہ روز جاری ہونے والے ایک بیان کی توسیع کی جس میں کہا گیا تھا کہ خطے میں کسی بھی ملک کی سلامتی کی ناکامی کے لیے طالبان حکام کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے، افغانستان کی حکومت نے اپنے حفاظتی اقدامات کو مضبوط کیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان حکام نے کھلے عام پاکستانی شہریوں پر افغانستان میں حملوں کا الزام لگایا ہے۔
ادھر اسلام آباد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حملے کرنے والے عسکریت پسند افغانستان میں پناہ گاہوں سے کام کر رہے ہیں اور انہیں افغان شہریوں کی مدد حاصل ہے۔
طالبان حکام مسلسل یہ عہد کر رہے ہیں کہ افغان سرزمین غیر ملکی عسکریت پسندوں کو بیرون ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے جو کہ امریکہ کے ساتھ افغانستان چھوڑنے کے لیے کیے گئے معاہدے کا ایک اہم نکتہ ہے۔
گزشتہ ہفتے افغان سرکاری میڈیا نے وزیر دفاع کی ایک تقریر نشر کی جس میں سیکیورٹی یونٹوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ افغانستان سے باہر لڑائی کی مذہبی طور پر اجازت جہاد نہیں بلکہ جنگ ہے، جسے سپریم لیڈر نے منع کر دیا تھا۔