• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

کراچی: جبران ناصر کی غیر قانونی سفری پابندی کے خلاف درخواست پر ایف آئی اے، حکومت سے جواب طلب

شائع August 9, 2023
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کی جانب سے سفر پر ’غیر قانونی پابندی‘ کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے متعلقہ حکام کو 17 اگست تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

وکیل جبران ناصر نے انکشاف کیا کہ انہیں ایف آئی اے نے گزشتہ ماہ دبئی جانے سے روک دیا تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جبران ناصر نے کہا کہ 27 جون کو میں اور میری اہلیہ عید کے موقع پر اپنے اہل خانہ سے ملنے دبئی روانہ ہو رہے تھے اور ہمیں 5 جولائی کو کراچی واپس آنا تھا۔

جبران ناصر نے کہا کہ ہم نے اپنا سامان چیک کیا، بورڈنگ پاسز ملے، امیگریشن کلیئر کی اور ایگزٹ اسٹیمپس حاصل کیے لیکن ڈیپارچر لاؤنج کے قریب پہنچتے ہی ہمیں ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے بلایا جو اپنے فون پر کسی سے ہدایات لے رہا تھا۔

وکیل جبران ناصر نے کہا کہ ایف آئی اے اہلکار نے ان کے پاسپورٹ لیے اور فون پر بات کرنے والے شخص کو نام پڑھ کر سنائے۔

انہوں نے افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہی لوگ ہیں آپ کے‘ جس کے بعد ہماری پرواز چھوٹ گئی، ہمارا سامان واپس آ گیا اور ہمارے پاسپورٹ پر چسپاں ڈاک ٹکٹ اتار دیے گئے۔

سماجی کارکن نے کہا کہ ’براہ کرم سمجھا کریں سر، ہمین ہدایات ہیں آپ کو جانے نہیں دینا‘ کے علاوہ کوئی باضابطہ وضاحت نہیں دی گئی۔

جبران ناصر نے کہا کہ انہیں اور نہ ہی ان کی اہلیہ کو وزارت داخلہ سے اس معاملے سے متعلق کوئی اطلاع موصول ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے سفر پر پابندی کو یکم جون کو انہیں اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لیے اختیار کیے گئے غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈوں کے تسلسل کے طور پر دیکھا۔

جبران ناصر نے کہا کہ نہ تو میں انسانی حقوق کے کام اور سیاسی سرگرمی کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور نہ ہی میرا پاکستان سے باہر جانے کا کوئی ارادہ ہے، یہیں رہیں گے اور کسی بھی اور تمام اداروں کی غیر قانونی اور غیر آئینی پالیسیوں اور اقدامات کی مزاحمت کرتے رہیں گے۔

درخواست کا متن

جبران ناصر کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں وفاقی اور سندھ حکومتوں، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ، سیکریٹری ہوا بازی اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین نے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور بغیر کسی مناسب قانون کے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی غیر قانونی، غیر آئینی ہے۔

جبران ناصر نے درخواست میں کہا کہ ان کے اغوا کے واقعے کے باوجود مدعا علیہان درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ کے بنیادی حقوق کو قانون کے مطابق یقینی بنانے اور اپنے ملک میں تحفظ کا احساس دلانے کے بجائے ہراسان کرنے، تضحیک کرنے اور ذہنی اذیت دے کر نشانہ بنا رہے ہیں اور سفر کرنے پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون میں شہریوں پر بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کرنے کا واحد طریقہ کار ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس 1981 اور ایگزٹ فرام پاکستان (کنٹرول) رولز 2010 کے دائرہ کار میں ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جبران ناصر اور نہ ہی ان کی اہلیہ کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا تھا اور نہ ہی ان پر کوئی تفتیش کی گئی تھی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ جبران ناصر اور ان کے اہل خانہ سے مجوزہ یونیورسٹی مذاکرات کے لیے متحدہ عرب امارات اور امریکہ کا سفر کرنے کی توقع تھی لیکن جواب دہندگان کے اقدامات کی وجہ سے درخواست گزار نہ تو کسی سفری منصوبے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ جبران ناصر کو آف لوڈ کرنے اور ان کے بیرون ملک سفر پر روک لگانے کے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے۔

درخواست میں ان افسران کے بارے میں بھی انکوائری کا مطالبہ کیا گیا ہے جنہوں نے سماجی کارکن اور اس کی اہلیہ کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکا۔

درخواست میں عدالت سے کہا گیا کہ وہ جبران ناصر اور ان کی اہلیہ کو عوام میں ذہنی اذیت، ہراساں کرنے، تضحیک اور شرمندگی کا باعث بننے کے لیے مدعا علیہان کو 10 لاکھ روپے کا عمومی ہرجانہ ادا کرنے کی ہدایت کرے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مدعا دہندگان کو ہدایت کریں کہ وہ درخواست گزار کو اپنے اور ان کی اہلیہ کے بنیادی آئینی حقوق اور آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے پر مثالی ہرجانے کے تحت ایک کروڑ روپے ادا کریں۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024