• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

پی آئی اے: قومی شناخت سمجھا جانے والا ادارہ قومی بوجھ کیوں؟

یہ فیصلہ پالیسی سازوں نے کرنا ہے کہ آیا وہ پی آئی اے کو نجی شعبے کی مدد سے بحال کرنا چاہتے ہیں یا پھر دیگر لیگیسی ایئرلائنز کی طرح بندش اس کا مقدر ٹھہرے گی۔
شائع August 10, 2023

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ان دنوں ایک قومی بوجھ تصور کی جارہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پی آئی اے کو مفت لے جاو تو کوئی کہتا ہے کہ قومی خزانے پر بوجھ ہے اس کو بند کردیا جائے۔ پی آئی اے قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ ملک کے دنیا بھر میں تعارف کے علاوہ ترقی، خوش حالی اور دفاعِ وطن میں اہم کردار ادا کرنے والا ادارہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہر چند منٹ میں پی آئی اے کا طیارہ دنیا کے کسی نہ کسی ہوائی اڈے پر اتر یا پرواز کررہا ہوتا تھا اور یہ ایئرلائن قومی پرچم کو دنیا بھر میں لہراتی تھی۔

اس تحریر میں اس قومی اثاثے کی عظمت رفتہ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے زوال کے اسباب پر ایک طائرہ نظر ڈالیں گے۔ پی آئی اے کی کہانی میری بھی کہانی ہے کیونکہ اس ادارے میں میرے والد کی ملازمت کی بدولت ہی میں آج اس مقام تک پہنچا ہوں۔ میں نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک پی آئی اے کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔

پی آئی اے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ پاکستان کو قیام کے بعد ہی دنیا بھر سے رابطے کے لیے ایک ایئرلائن کی ضرورت ہوگی۔ قائد اعظم نے معروف مسلم صنعت کار ایم اے اصفحانی کو ایئرلائن قائم کرنے کی ہدایت کی۔ اکتوبر 1946ء میں ایک نئی ایئرلائن اوریئنٹ ایئرویز کے نام سے کلکتہ میں رجسٹر کروائی گئی جس کے چیئرمین ایم اے اصفہانی تھے اور ایئر وائس مارشل او کے کارٹر کو جنرل منیجر تعینات کیا گیا تھا۔ اس ایئرلائن کے لیے امریکا سے ڈگلس ڈی سی تھری مسافر طیارے خریدے گئے اور 4 جون 1947ء کو کلکتہ سے رنگون کے لیے پہلی پرواز آپریٹ ہوئی۔ اس طرح یہ جنگِ عظیم کے بعد برصغیر سے کسی بھی ایئرلائن کی پہلی بین الاقوامی کمرشل پرواز تھی۔

قیام پاکستان کے بعد بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کے انخلا کے لیے دہلی سے کراچی پروازیں چلائی گئیں۔ اسی دوران اوریئنٹ ایئرویز نے اپنا صدر دفتر کلکتہ سے کراچی منتقل کیا اور کراچی سے ڈھاکا کے درمیان نہایت درکار فضائی رابطہ قائم کیا۔ اس وقت ادارے کے پاس 2 ڈگلس طیارے، 3 پائلٹس اور 12 میکنک تھے۔ اس کے باوجود ایئرلائن نے کراچی-لاہور-پشاور اور کراچی-کوئٹہ-لاہور اور کراچی-دلی-کلکتہ-ڈھاکہ کے روٹس پر آپریشنز شروع کیے۔ 1949ء کے اختتام تک اس کے بیڑے میں 10 ڈی سی تھری اور 3 کون ویئر 240 طیارے شامل ہوچکے تھے۔

  اورینٹ ایئر ویز کا کون ویئر 240 طیارہ— تصویر: وکی پیڈیا
اورینٹ ایئر ویز کا کون ویئر 240 طیارہ— تصویر: وکی پیڈیا

اوریئنٹ ایئرویز ایک نجی ایئرلائن تھی لیکن وہ پاکستان کے لیے نہایت اہم خدمات سرانجام دے رہی تھی۔ تاہم وسائل اور سرمایہ محدود ہونے کی وجہ سے ایئرلائن کی ترقی متاثر ہورہی تھی اور حکومت بھی ایک سرکاری ایئرلائن چاہتی تھی۔ اس لیے اوریئنٹ ایئرویز کو جنوری 1955ء میں قومی پرچم بردار فضائی کمپنی پی آئی اے سی میں ضم کردیا گیا۔ اسی سال پی آئی اے نے اندرون ملک پروازوں کے علاوہ لندن کے لیے پہلی بین الاقوامی پرواز چلائی۔ بین الاقوامی روٹ پر پرواز کرنے سے پی آئی اے نے ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانا شروع کیا اور پی آئی اے کی ترقی کا ایک سنہرا دور شروع ہوا۔

  جنوری 1955ء میں اوریئنٹ ایئرویز کو پی آئی اے میں ضم کردیا گیا— تصویر: ڈان اخبار
جنوری 1955ء میں اوریئنٹ ایئرویز کو پی آئی اے میں ضم کردیا گیا— تصویر: ڈان اخبار

سال 1959ء میں حکومت پاکستان نے ایئر کموڈور نور خان کو پی آئی اے کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کردیا۔ پی آئی اے نے 1960ء میں جیٹ طیارہ بوئنگ 707 خریدا اور جیٹ طیارے استعمال کرنے والی ایشیا کی پہلی ایئرلائن بن گئی۔ لندن کے بعد پی آئی اے نے امریکا کے لیے پروازیں شروع کیں اور اس دوران پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔

  بوئنگ 707— تصویر: وکی پیڈیا
بوئنگ 707— تصویر: وکی پیڈیا

سال 1964ء میں چین کے لیے پہلی پرواز چلاکر پی آئی اے اس سے فضائی رابطہ قائم کرنے والے کسی غیر کمیونسٹ ملک کی پہلی ایئرلائن بن گئی۔ اس حوالے سے چینی فوج کے ایک جنرل کے پوتے نے چند سال قبل ایک کانفرنس میں یہ واقعہ سنایا کہ جب پی آئی اے کی پرواز بیجنگ کے ایئرپورٹ پر اتری تو اس وقت چینی حکومت اور عوام میں جوش و خروش نہایت عروج پر تھا اور آج بھی بوڑھے چینی اس دن کو یاد کرتے ہیں۔

اس کے بعد ایئر وائس مارشل اصغر خان نے پی آئی اے کا انتظام 3 سال کے لیے سنبھالا تو انہوں نے فضائی میزبانوں کا نیا یونیفارم فرانسیسی ڈیزائنر پیری کارڈن سے ڈیزائن کروایا۔ اس کے دنیا بھر میں چرچے ہوئے اور پی آئی اے ترقی یافتہ پاکستان کی شناخت بن گئی۔ کیپٹن عائشہ رابعہ کہتی ہیں کہ پی آئی اے کا یونیفارم بہت خوبصورت تھا۔ جب وہ کسی بھی ملک کے ایئرپورٹ پر پائلٹ کے یونیفارم میں اترتیں تو لوگ حیرت سے دیکھتے کہ پاکستان میں خواتین پائلٹس بھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پی آئی اے کے ذریعے پاکستان کی نمائندگی کرنے میں بہت فخر محسوس ہوتا تھا۔

    کراچی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی فضائی میزبان (1960ء)— تصویر: محمود جمعہ
کراچی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کی فضائی میزبان (1960ء)— تصویر: محمود جمعہ

اس وقت ایئرلائنز اپنے تمام شعبہ جات کو خود چلاتی تھیں۔ اس لیے پی آئی اے میں شعبہ انجنیئرنگ، ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ، پیسنجر ہینڈلنگ، مارکیٹنگ، سیلز، فلائٹ آپریشن اور دیگر شعبہ جات قائم کرنے کے علاوہ پروازوں میں کھانا فراہم کرنے کے لیے اپنا کچن پہلے کراچی اور پھر لاہور میں قائم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فضائی عملے، انجنیئرز اور دیگر اسٹاف کی تربیت کے لیے خطے کا پہلا تربیتی مرکز قائم کیا۔ اس وقت دنیا کی بڑی ایئرلائنز کے پائلٹس کی ابتدائی تربیت پی آئی اے نے کی۔ اس حوالے سے پی آئی اے کی خاتون پائلٹ کیپٹن عائشہ رابعہ کہتی ہیں کہ پی آئی اے نے ایمیریٹس ایئرلائن، سنگاپور ایئرلائن، جارڈینین ایئرلائن اور مالٹا ایئرکے پائلٹس کو تربیت دی۔

   پیری کارڈن کے ڈیزائن کردہ یونیفارم— تصویر: فیس بک
پیری کارڈن کے ڈیزائن کردہ یونیفارم— تصویر: فیس بک

1970ء کی دہائی تک پی آئی اے خطے میں یورپ اور امریکا تک جانے والی چند ایئرلائنوں میں شامل تھی۔ مشرق وسطیٰ، مشرق بعید اور یورپ بلکہ امریکا تک سفر کے لیے مسافر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔ کراچی ایئر پورٹ کے قریب قائم ہوٹلز سیاحوں سے بھرے رہتے کیونکہ وہ پی آئی اے کی منسلک پرواز کے ذریعے اپنی منزل پر پہنچنا چاہتے تھے۔

ملکی دفاع میں بھی پی آئی اے نے بہت اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ پاک بھارت جنگ 1965ء میں پی آئی اے نے وطن کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا اور چین سے اہم دفاعی آلات پاکستان منتقل کرنے میں بھر پور کرادار ادا کیا۔ میرے والد صاحب بھی پی آئی اے کے ان ملازمین میں شامل تھے جو کہ دفاعی آلات کی منتقلی کے لیے چین گئے تھے۔ اس وقت چین میں ہوٹلز وغیر نہ تھے اس لیے بیجنگ ایئر پورٹ پر ہی کئی دن گزارتے اور طیاروں میں سامان لوڈ کروا کر پاکستان بھجواتے تھے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے نے ملک کے اسٹریٹجک دفاع میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ پی آئی اے کے شعبہ انجیئرنگ نے اسٹریٹجک دفاعی آلات کی ملک میں تیاری میں بہت زیادہ معاونت کی۔

  1960ء کی دہائی میں شائع ہونے والا پی آئی اے کا ایک اشتہار
1960ء کی دہائی میں شائع ہونے والا پی آئی اے کا ایک اشتہار

بین الاقوامی سطح پر جب بھی پاکستانیوں کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو اس میں پی آئی اے نے فرنٹ لائن پر کردار ادا کرتے ہوئے پاکستانیوں کے انخلا میں معاونت کی۔ کورونا کے دوران جب دنیا بھر میں پروازیں بند ہوگئی تھیں تو پی آئی اے کے عملے نے جان پر کھیلتے ہوئے ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کو بیرون ملک سے وطن منتقل کیا۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد پاکستانیوں کو پولینڈ سے خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن لایا گیا۔ اس کے علاوہ بشکیک، عراق، یمن، سوڈان، افغانستان سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر انخلا کے آپریشن گزشتہ دو سال کے دوران کیے ہیں۔

اس سے قبل عراق کے کویت پر قبضے کے بعد بھی پاکستانیوں کو وطن پہنچانے میں پی آئی اے نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور جنگ زدہ علاقوں میں چند گھنٹوں کی مہلت پر انسانی بنیادوں پر پروازیں آپریٹ کیں۔

  کابل ایئرپورٹ پر مسافر پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہورہے ہیں— تصویر: اے ایف پی
کابل ایئرپورٹ پر مسافر پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہورہے ہیں— تصویر: اے ایف پی

پی آئی اے نے کھیلوں کے فروغ میں بھی نہایت اہم کردار ادا کیا اور ادارے میں پروفیشنل کھلاڑیوں کو ملازمت فراہم کرکے انہیں کھیلنے کا موقع دیا۔ پی آئی اے نے کرکٹ، ہاکی، اسکوائش، فٹبال، شطرنج، برج، پولو، ٹیبل ٹینس کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے مالی اور دیگر معاونت بھی فراہم کی۔ اس کے علاوہ فنکاروں کے لیے بھی ایک اکیڈمی قائم کی گئی تھی۔

پی آئی اے کی ترقی کا عمل 1980ء کی دہائی تک جاری رہا مگر ملک کے سیاسی حالات نے قومی ایئرلائن کو بری طرح متاثر کیا اور اس وقت حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلوں نے پی آئی اے کی ترقی کے سفر کو تنزلی میں بدل کر رکھ دیا۔ 1980ء کی دہائی میں پی آئی اے میں انتظامی سطح پر بہت سی مشکلات کھڑی ہوگئی تھیں۔ میرے والد صاحب چونکہ پی آئی اے کے شعبہ ٹیکنیکل گراؤنڈ سپورٹ میں تھے۔ ان کا کام طیاروں کو زمینی معاونت فراہم کرنے والے آلات اور طیاروں میں سامان کو اتارنے چڑھانے والے آلات کو آپریٹ کرنا تھا۔

چند جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے مسافروں کے سامان کی چوری اور اسمگلنگ بڑھ گئی تھی۔ یہ میرے بچپن کی بات ہے کہ چند افراد میرے والد صاحب کے پاس گھر آئے اور انہیں مجبور کرنے لگے کہ ایک بیگ آپ نے طیارے میں بغیر کسٹم کی جانچ کے چڑھانا ہے۔ رقم کی پیشکش کے ساتھ ساتھ والد صاحب کو عدم تعاون پر دھمکیاں بھی دی گئیں۔ مگر انہوں نے اس عمل میں تعاون سے انکار کردیا۔ جس کے بعد وہ ادارے کے اندر پیدا ہونے والی مافیا کے نشانے پر آگئے اور انکار پر سزا کے طور پر کراچی سے تبادلہ کرکے ملتان بھیج دیا گیا۔ وہ عرصہ ہم نے والدہ کے ساتھ نہایت مشکل میں گزارا۔

اس بد انتظامی کے ساتھ ہی 1981ء میں پی آئی اے میں 2 واقعات رونما ہوئے جس نے قومی ایئرلائن کے ملازمین کو ایک قومی اثاثے کے بجائے ایک قومی رسک قرار دے دیا۔ پہلا واقعہ 2 فروری 1981ء کو پیش آیا جب پراسرار طور پر ہینگر میں کھڑے پی آئی کے طیارے کو آگ لگ گئی اور وہ جل کر مکمل تباہ ہوگیا۔ اس حادثے کی تحقیقات جاری تھیں کہ 2 مارچ کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 326 جو کہ کراچی سے پشاور جارہی تھی کو اغوا کر کے کابل لے جایا گیا۔ اس اغوا میں طیارے کے اندر اسلحہ پہنچانے کا الزام پی آئی اے کے ملازمین پر لگایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پی آئی اے پر بھی مارشل لا قوانین کا نفاذ کردیا گیا اور ادارے میں بڑے پیمانے پر ملازمین کو برطرف کرنے کے علاوہ گرفتاریاں بھی ہوئیں اور حکومت نے ایک تجارتی ادارے کو وزارت دفاع کے ماتحت کردیا جس سے پی آئی اے کی ترقی کو بہت بڑا دھچکا لگا۔

   کراچی ایئرپورٹ پر جل کر تباہ ہونے والا پی آئی اے کا جہاز— تصویر: ڈان اخبار
کراچی ایئرپورٹ پر جل کر تباہ ہونے والا پی آئی اے کا جہاز— تصویر: ڈان اخبار

قومی ایئرلائن کو وزارت دفاع کے ماتحت کرنا اس کے کاروبار کی تباہی کی بڑی وجہ ہے۔ اس فیصلے سے پی آئی اے پروفیشنل انداز میں چلائی نہ جاسکی اور اس کی فیصلہ سازی کاروباری بنیادوں کے بجائے دفاعی بنیادوں پر کی جانے لگی۔ اس کے علاوہ ایئرلائن میں ایوی ایشن ماہرین کی جگہ نان پروفیشنل انتظامیہ نے لینا شروع کردی جبکہ مراعات اور تنخواہوں میں نمایاں کمی نے ملازمین کے جذبے کو بری طرح متاثر کیا اور ایئرلائن ہر گزرتے دن تنزلی کا شکار ہوتی رہی۔ ساتھ ہی ادارے میں سیاسی مداخلت بڑھتی چلی گئی۔

  پی آئی اے کا اغوا ہونے والا طیارہ— تصویر: ہسٹری آف پی آئی اے ڈاٹ کام
پی آئی اے کا اغوا ہونے والا طیارہ— تصویر: ہسٹری آف پی آئی اے ڈاٹ کام

1980ء کی دہائی میں وائڈ باڈی طیاروں کی امد سے شہری ہوابازی کی صنعت میں تیزی سے تبدیلی آنے لگی مگر پی آئی اے اپنے انتظامی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کو تیار نہ تھی اور نہ ہی پی آئی اے کی انتظامیہ اور نہ ہی پالیسی ساز شہری ہوابازی میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھ سکے۔ جبکہ ادارے کی پالیسی سازی میں ملازمین کا کردار مکمل طور پر ختم ہوچکا تھا۔ دنیا میں تبدیل ہوتے ایوی ایشن قوانین کی روشنی میں 1990ء کی دہائی میں اوپن اسکائی پالیسی کو اپنایا گیا اور پی آئی اے کو ایسی ایئرلائنوں کے مقابلے میں میں کھلا چھوڑ دیا گیا جن کے پاس وسائل کی ریل پیل ہونے کے علاوہ جدید انتظامی نظام بھی موجود تھا۔ جبکہ پی آئی اے دنیا کی دیگر ایئرلائنوں کی طرح ایک Legacy Airline بن کررہ گئی تھی۔

پی آئی اے کے انتظامی ڈھانچے کی مشکلات اپنی جگہ مگر ادارے کے لیے ملک کے اندر سے بھی مشکلات کھڑی کی جاتی رہیں۔ اوپن اسکائی پالیسی کے تحت نجی ایئرلائنز کو اجازت دی گئی لیکن پی آئی اے کے مقابل شاہین ایئرلائن کو ملک کی ایک نئی قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کے طور پر کھڑا کردیا گیا۔ اس سے پی آئی اے کو شدید نقصان ہوا۔ شاید پاکستان واحد ملک تھا جہاں دو قومی پرچم بردار فضائی کمپنیاں آپریٹ کرتیں۔

    یکم اگست 1994ء کو شاہین ایئر کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر— ڈان اخبار
یکم اگست 1994ء کو شاہین ایئر کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر— ڈان اخبار

شاہین ایئر کو وہ روٹس دیے گئے جو کہ صرف قومی پرچم بردار کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے گراؤنڈ ہینڈلنگ جس میں طیاروں کو آلات فراہم کرنے کا شعبہ بھی شامل تھا، کے ذریعے سالانہ خطیر منافع کماتی تھی۔ مگر اس کے مقابلے میں شاہین ایئرپورٹ سروسز کو کھڑا کیا گیا۔ پی آئی اے کے متعدد ایئرلائنوں کے ہینڈلنگ کے معاہدے شاہین ایئر پورٹ سروسز کو منتقل کردیے گئے جس سے گراؤنڈ ہینڈلنگ کا شعبہ بھی خسارے کا شکار ہوگیا۔

پی آئی اے نے خطے میں ابھرتی معیشتوں جیسے کہ متحدہ عرب امارات کو اس کی ایئرلائن قائم کرنے کے لیے نہ صرف تکنیکی معاونت فراہم کی بلکہ اپنا ایک بوئنگ 737 طیارہ بھی ابتدائی آپریشنز کے لیے فراہم کیا۔ ایمیریٹس ایئرلائن نے پہلی پرواز بھی دبئی سے کراچی کے لیے چلائی۔ اس ایئرلائن کے قیام سے پی آئی اے کے ملازمین نے بہتر تنخواہ، مراعات اورکام کرنے کے بہتر حالات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ایمیریٹس ایئرلائن کا رخ کیا اور پی آئی اے میں سیاسی طور پر بھرتی ہونے والے افراد ہی باقی رہ گئے جو ایئرلائن کو آگے بڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ پی آئی اے نے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 25 ایئرلائنوں کو تکنیکی معاونت فراہم کی ہے اور آج بھی دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹس اور ایوی ایشن ماہرین کی مانگ ہے۔

نصر اللہ خان آفریدی پی آئی اے کیبن کریو کی ایسوسی ایشن کے صدر ہیں، انہوں نے بطور فضائی میزبان 1984ء میں پی آئی اے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ زمانہ پی آئی اے کے عروج کا زمانہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جو انتظامیہ اور ملازمین تھے ان میں ادارے کے ساتھ وفاداری، ایمان داری تھی اور ترجیحات بہت مخلتف تھیں۔ انسانی ذمہ داری کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ مگربعد ازاں بدعنوانی ترجیح بن گئی ہے۔ سیاسی مداخلت نے ادارے کو تباہ کردیا۔ ملازمین ادارے سے وفاداری کے بجائے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم ہوگئے اور اس تقسیم کی وجہ سے انتظامیہ کے لیے بھی ملازمین کی اہمیت کم ہوگئی۔ نصر اللہ آفریدی فضائی میزبانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر بھی انتظامیہ سے نالاں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فضائی میزبانوں سے 18 گھنٹے تک ڈیوٹی لی جارہی ہے جو کہ عالمی سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

دنیا میں نئے نئے طیارے متعارف ہوئے جس میں سے بوئنگ 777 لانگ ہال طیارے کے متعارف ہونے سے فضائی صنعت تبدیل ہوگئی۔ یہ طیارے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بغیر کسی اسٹاپ کے سفر کرسکتے تھے۔ یعنی آپ ناشتہ کریں اسلام آباد میں اور رات کا کھانا کھائیں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں۔ پی آئی اے کے لیے اسلام آباد ٹورنٹو روٹ نہایت منافع بخش ثابت ہوا۔ پی آئی اے وہ پہلی ایئر لائن تھی جس نے لانگ ہال طیاروں کے ذریعے طویل ترین پروازیں کیں۔ پی آئی اے کو یہ طیارے اس وقت امریکا نے فروخت کیے تھے جب دنیا میں ایوی ایشن انڈسٹری زوال کا شکار تھی اور ان طیاروں کے خریدار نہ تھے۔

  پی آئی اے کا بوئنگ 777 طیارہ— تصویر: ٹوئٹر
پی آئی اے کا بوئنگ 777 طیارہ— تصویر: ٹوئٹر

پی آئی اے کو یہ طیارے اس صدی کے آغاز میں اس وعدے پر دیے گئے تھے کہ پاکستان میں امریکی امیگریشن سینٹر قائم ہوگا اور پی آئی اے براہ راست اپنی پروازیں امریکا کے لیے چلائے گی۔ یوں خطے کے دیگر ملکوں کے مسافر پاکستان سے امریکا کے لیے براہ راست سفر کرسکیں گے۔ مگر یہ وعدہ ایفا نہ ہوا اور امریکا نے اپنا امیگریشن سینٹر ابوظبی میں قائم کردیا۔ اس کے علاوہ 14 گھنٹے پرواز کرنے والے طیاروں کے متعارف ہونے سے یورپ اور مشرق بعید کے درمیان کراچی ایئر پورٹ کی اہمیت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور طیارے کراچی میں ایندھن بھروانے کے لیے لینڈ کیے بغیر فضائی حدود سے نکل جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے میں قائم ہونے والی 3 بَلک ایئرلائنز سے بھی پی آئی اے کو شدید نقصان ہوا۔

ایمیریٹس کو پی آئی اے نے خود بنایا تھا۔ ایمیریٹس کے علاوہ قطر اور اتحاد ایئرویز کی وجہ سے پی آئی اے کے یورپ اور امریکا کے مسافر ان ایئرلائنز کو ترجیح دینے لگے۔ ان تنیوں ملکوں کے پاس بہت سے وسائل تھے جن کا استعمال کر کے اپنی ایئرلائنوں کو دیگر کے مقابلے میں تیزی سے وسعت دی۔ امریکی ایئرلائنز کی ایسوسی ایشن ان تنیوں ایئرلائنوں کے خلاف کئی سال سے احتجاج کررہی ہے اور وہ ان ایئرلائنوں کو دی جانے والے سبسڈی اور اوپن اسکائی پالیسی کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے فیئر اسکائی پالیسی لاگو کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ دوسری جانب پی آئی اے امریکا کے چار شہروں کے لیے جو پروازیں چلاتی تھی، انہیں بند کرنا پڑا۔

دنیا میں ایئرلائنز کے انتظامی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور ایئرلائنز نے اپنے شعبہ انجنیئرنگ، فلائٹ کچن، گراؤنڈ اور پیسنجر ہینڈلنگ کے شعبوں کو یا تو آؤٹ سورس کردیا یا ان کی ذیلی کمپنیاں بنادیں۔ جبکہ پی آئی اے آج بھی اپنے 1960ء میں قائم کردہ انتظامی ڈھانچے پر کام کررہی ہے۔ ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کو طیاروں کی خریداری، آپریشنز، انجنیئرنگ، پروازوں میں کھانے اور ہر طرح کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ان فیصلوں کی توثیق حکومت کرتی ہے جس سے فیصلہ سازی درست طور پر نہیں ہوپاتی ہے۔ پی آئی اے کو کس طرح انتظامی طور پر بہتر بنایا جائے اس حوالے سے راقم کی ایک تحریر فروری 2017ء میں شائع ہوچکی ہے۔

پی آئی اے کے ملازمین بھی کسی بڑی تبدیلی کے تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں اعجاز ہارون نے بطور ایم ڈی پی آئی اے ترکش ایئرلائن کے ساتھ کوڈ شیئرنگ کا معاہدہ کیا جس میں پی آئی اے یورپ کے لیے اپنی پروازوں کو جاری رکھتی اور جن یورپی اور امریکی شہروں کے لیے پروازیں آپریٹ نہیں کررہی ہے وہاں پی آئی اے کے مسافروں کو سفری سہولت ترکش ایئرلائن فراہم کرتی۔ معاہدے کے تحت پی آئی اے استنبول تک یورپی مسافروں کو لے کر جاتی جہاں سے ترکش ایئرلائن مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی۔

اس حوالے سے پائلٹس ایسوسی ایشن پالپا نے کیپٹن سہیل بلوچ کی قیادت میں کراچی کے جناح ٹرمینل پر احتجاج کیا جس پر اے ایس ایف نے لاٹھی چارج کیا اور اس کی وجہ سے ترکش ایئرلائن اپنے معاہدے سے پیچھے ہٹ گئی۔ اب یہ صورتحال ہے کہ پی آئی اے ترکی کے لیے پروازیں چلاتی ہی نہیں۔ پالپا کے اس احتجاج میں تمام یونینز اور ایسوسی ایشنز نے ساتھ دیا تھا۔

  پی آئی اے کے ملازمین کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں
پی آئی اے کے ملازمین کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں

اسی طرح پی آئی اے کے ملازمین نے ممکنہ نجکاری کے خلاف 2016ء میں احتجاج کرتے ہوئے پی آئی اے کے آپریشن کو بند کردیا تھا۔ راقم بطور ایوی ایشن رپورٹر اس احتجاج کی کوریج کرتا رہا۔ اس احتجاج کے دوران ایک ریلی پی آئی اے ہیڈ آفس سے نکالی گئی جس کا مقصد جناح ٹرمینل پر پہنچ کر پورے فضائی آپریشن کو بند کرنا تھا۔ اس دوران ریلی پر فائرنگ سے پی آئی اے کے 2 ملازمین ہلاک ہوگئے۔ پائلٹس ایسوسی ایشن نے احتجاج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فضائی آپریشن بحال کیا اور یوں پی آئی اے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔

ماضی قریب میں پی آئی اے کو بحال کرنے کی کوششیں تو کی گئی ہیں لیکن بزنس پلان پر کامیابی نہیں مل پائی، ایکس چینج ریٹ اور ایندھن کی قیمت پر دھچکے لگے اور پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کم ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی پی آئی اے کو لیز پر طیارے دینے کو تیار نہیں ہے اور لیز پر دیئے گئے طیارے واپس لیے جارہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق بھارت اور جنوبی افریقہ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی نجی شعبے کو ساتھ ملا کر پی آئی اے کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پی آئی اے کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے انٹرنیشنل روٹس ہیں جو کہ کسی ایئرلائن کو نہیں مل سکتے اور یہ بات درست بھی ہے۔ پی آئی اے کو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے حقوق حاصل ہیں جو کہ خلیجی ملکوں کی کسی ایئرلائن کے پاس موجود نہیں ہیں۔

ماضی میں قوم کی شناخت رہنے والی پی آئی اے اب ایک قومی بوجھ ہے یہ فیصلہ پالیسی سازوں کو کرنا ہے کہ آیا وہ پی آئی اے کو نجی شعبے کی مدد سے بحال کرنا چاہتے ہیں یا پھر دیگر ایئرلائنز کی طرح بندش اس کا مقدر ٹھہرے گی۔


ہیڈر: فیس بک

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔