نگران وزیر اعظم کے لیے ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا، شہباز شریف
قومی اسمبلی تحلیل ہونے میں اب صرف ایک دن کا وقت رہ گیا ہے اور نگران وزیراعظم کے حوالے سے کئی نام زیر گردش ہیں لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں میزبان عادل شاہ زیب سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کل صدر مملکت کو سمری چلی جائے گی تو پھر میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے رابطہ کر کے پہلی ملاقات کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ میری اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ اتحادیوں سے اس بارے میں مشاورت چل رہی ہے جو ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا نگران وزیراعظم مسلم لیگ(ن) سے بھی ہو سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نگران وزیراعظم کو کسی بھی قسم کے سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہونا چاہیے اور امید ہے کہ اتحادی جماعتیں مل کر ایک ایسا فیصلہ کریں گی جو عمومی طور پر لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی نگران وزیر اعظم کے لیے نام شارٹ لسٹ نہیں کیے گئے، ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا۔
وزیراعظم نے ڈان نیوز کے پروگرام میں حفیظ شیخ کا نام بھی شارٹ لسٹ کیے جانے کی تردید کی حالانکہ دو دن قبل ہی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ شارٹ لسٹ کیے گئے ناموں میں عبدالحفیظ شیخ کا نام بھی شامل ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص نگران وزیراعظم بن جائے جس کا نام فہرست میں ہی نہ ہو، خواجہ آصف
ادھر جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ راجہ ریاض قائد حزب اختلاف ہیں اور آئین کے مطابق ان سے مشاورت کے بغیر کچھ ہو نہیں سکتا اور اگر نگران وزیراعظم کے معاملے پر ڈیڈلاک ہو جاتا ہے تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا تاہم میرا نہیں خیال کہ ڈیڈ لاک ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اتنے سارے نام آ رہے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص نگران وزیراعظم بن جائے جس کا نام فہرست میں ہی نہ ہو۔
خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ بہت سے لوگ نگران وزیراعظم بننے کے خواہشمند ہیں، لوگوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ لوگوں کا خیال ہے نگران حکومت لمبی چلے گی اس لیے لوگ اس عہدے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن بہت سے بہت جنوری میں ہو جانے چاہئیں اور اس میں دو ڈھائی ماہ سے زیادہ التوا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم سینیٹ الیکشن میں نئی حکومت کے ساتھ جائیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سینئر سیاستدان نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ نواز شریف کو ستمبر میں آ جانا چاہیے، انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے اور اس میں ان کا کردار بہت اہم ہو گا، ان کا پاکستان آنا ضروری ہے اور اس راہ میں حائل قانونی نقائص جلد دور ہو جائیں گے۔
گوکہ وزیر اعظم نے کسی بھی نام کو حتمی شکل دینے کی تردید کی ہے لیکن ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکمران اتحاد نے نگراں وزیر اعظم کے لیے نام پر اتفاق رائے پیدا کر لیا ہے لیکن وہ کسی تنازع سے بچنے کے لیے اس نام کو مخفی رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بھی تین دن تک اس معاملے پر مشاورت کر سکتے ہیں تاہم اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیج دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور حفیظ شیخ کو اس عہدے کے لیے سب سے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے، وہ ان ٹیکنوکریٹس میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہیں اور جب بھی ملک میں کوئی عبوری حکومت قائم ہوتی ہے تو ہمیشہ ان کا نام لیا جاتا ہے۔
ان کے علاوہ نگراں وزیراعظم کے لیے کئی ممکنہ نام میڈیا میں زیر گردش ہیں جن میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی، وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، اقوام متحدہ میں سابق نمائندہ عبداللہ حسین ہارون، پگارو کے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اور سابق گورنر پنجاب اور پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود شامل ہیں۔