توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کےخلاف اپیل کل سماعت کیلئے مقرر
توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو جیل میں اے کلاس سہولیات دینے اور ان کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر اعتراضات ختم کرتے ہوئے اپیل کل سماعت کے لیے مقرر کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست پر ابتدائی سماعت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔
درخواست میں اٹک جیل میں حراست غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں اے کلاس کی سہولیات فراہم کرنے کی استدعا کی گئی ہے، اس کے علاوہ عمران خان کا اپنے ڈاکٹر فیصل سلطان سے معائنہ کرانے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے جسے کالعدم قرار دیا جائے، مرکزی اپیل پر فیصلے تک سزا معطل کرکے چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر رجسٹرار آفس نے اعتراض عائد کر دیا تھا، رجسٹرار آفس نے کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں اپیل کے ساتھ سزا معطلی دائر کرنے کا تصور نہیں ہے۔
سماعت کے آغاز پر معاون وکیل نے کہا کہ شیر افضل مروت لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں مصروف ہیں، سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا جائے، پیش ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے اپیل کو کل سماعت کے لیے مقرر کرنے کے ساتھ چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
وکیل شیر افضل مروت عدالت کے سامنے پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے دیا گیا پاور آف اٹارنی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، انہوں نے کہا کہ جیلوں کے حوالے سے رولز دستیاب ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو قانون قاعدہ ہو گا بتا دیجیے گا اس کے مطابق آرڈر کر دوں گا، ایک چیز ذہن میں رکھیں جیلوں کے رولز میں جو سہولت ہے وہی آرڈر کریں گے، جو وکلا ملنا چاہتے ہیں، دو تین دن میں بتا دیں اس لحاظ سے آرڈر کر دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر اعتراضات ختم ہونے کے بعد نمبر لگا دیا گیا، ان کی اپیل پر 273 نمبر الاٹ کیا گیا۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل کل سماعت کے لیے مقرر کردی اور چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز عمران خان کو جیل میں اے کلاس سہولیات دینے کے لیے اُن کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔
محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو بی کلاس سہولیات فراہم کی گئی ہیں، تاہم ان کے وکلا اور جماعت نے گزشتہ روز دعویٰ کیا کہ جیل انتظامیہ کی جانب سے انہیں عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
عمران خان کے ترجمان برائے قانونی امور نعیم حیدر پنجوتھا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ عمران خان کی اٹک جیل میں نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور سابق وزیراعظم کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
درخواست میں ریاست، اسلام آباد کے چیف کمشنر نورالامین مینگل اور اڈیالہ جیل اور اٹک جیل کے سپرنٹنڈنٹس کو کیس میں مدعا علیہ نامزد کیا گیا ہے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو پاکستان پریزن رولز (پی پی آر) کے رول 243 (کلاسیفائنگ اتھارٹی) کے تحت ’بہتر کلاس/اے-کلاس‘ جیل کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
نعیم حیدر پنجوتھا نے یہ بھی استدعا کی کہ عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم، خاندان کے افراد، ذاتی ڈاکٹر فیصل سلطان اور سیاسی معاونین سے باقاعدگی سے ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے، جن کی فہرستیں بھی عدالت میں جمع کروائی گئی ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو کس قانون کے تحت اٹک جیل میں نظر بند کیا گیا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے وارنٹ گرفتاری کے تحت انہیں اڈیالہ جیل بھیجنا چاہیے تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو 9 بائی 11 فٹ کے سیل میں رکھا گیا ہے جہاں ایک گندہ باتھ روم ہے، یہ کمرہ ایک گندہ سیل تھا جو عام طور پر دہشت گردوں کے لیے مختص ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ جواب دہندگان عمران خان کے ساتھ ایک مجرم جیسا سلوک کر رہے ہیں اور انہیں ناقص وجوہات اور سیاسی حکومت کے دباؤ کے تحت ایک چھوٹے اور تنگ بیرک میں رکھا گیا ہے۔
پی پی آر کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں استدلال کیا گیا کہ سماجی اور سیاسی حیثیت، تعلیم اور ان کے بہتر طرز زندگی کے عادی ہونےکی وجہ سے عمران خان اے کلاس سہولیات کے حق دار ہیں۔
عمران خان کو ان کی قانونی ٹیم، ڈاکٹر، خاندان کے افراد اور سیاسی معاونین تک رسائی سے انکار کی نشاندہی کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فیصل سلطان کی عمران خان تک رسائی ضروری ہے کیونکہ وہ پی ٹی آئی سربراہ کی مکمل طبی تاریخ (میڈیکل ہسٹری) سے واقف ہیں جن میں 2013 میں اسٹیج سے گرنے اور پچھلے سال وزیر آباد حملے کے زخم شامل ہیں۔
پی پی آر کے مطابق سزا یافتہ قیدیوں کو اعلیٰ، عام اور سیاسی طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے، اعلیٰ کلاس میں اے اور بی کلاس کے قیدی شامل ہیں، عام کلاس میں اعلیٰ کلاس کے علاوہ دیگر قیدی شامل ہوتے ہیں۔
زیرِ سماعت قیدیوں کی صرف 2 کلاسز ہیں، بہتر کلاس اور عام کلاس، بہتر کلاس میں وہ قیدی شامل ہیں جن کا مقدمہ زیرِ سماعت ہو اور جو سماجی حیثیت، تعلیم یا زندگی کی عادت کے لحاظ سے اعلیٰ طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جبکہ سزا یافتہ قیدیوں کے لیے اے اور بی کلاس ایک جیسی ہوتی ہیں، عام کلاس میں باقی سب شامل ہوں گے اور ان کی سہولیات سی کلاس جیسی ہوں گی۔
اعلیٰ کلاس کے قیدیوں کو کتابیں اور اخبارات، 21 انچ کا ٹیلی ویژن، ایک میز اور کرسی، ایک گدا، بستر، لباس اور خوراک فراہم کیے جاتے ہیں، اس سب کے لیے قیدی خود رقم ادا کرتے ہیں جبکہ حکومت صرف انہیں اعلیٰ حفاظتی وارڈ میں سیکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے جہاں انہیں دیگر قیدیوں سے دور رکھا جاتا ہے۔
جیل کے کمروں میں ایک چارپائی، ایک کرسی، ایک چائے کا برتن، اگر بجلی کی روشنی نہ ہو تو ایک لالٹین اور صفائی ستھرائی اور دھلائی کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اے کلاس کے قیدی سپرنٹنڈنٹ کی صوابدید پر اپنی ادا کردہ قیمت پر مناسب حدود میں دیگر اشیا کے ذریعے فرنیچر بھی حاصل کرسکتے ہیں۔