• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ملازمہ تشدد کیس: سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج، احاطہ عدالت سے گرفتار

شائع August 7, 2023
جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کیا کہ سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے— فوٹو: ڈان نیوز
جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کیا کہ سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے— فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرکے گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں، اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں کم عمر ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواستِ ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے کی۔

واضح رہے کہ 25 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید کی عدالت میں ملزمہ سومیہ عاصم اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئیں، متاثرہ لڑکی کی جانب سے بھی وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

پولیس نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کر دیا، ملزمہ کے وکیل کی استدعا پر کیس کی سماعت میں 10 بجے تک کا وقفہ کیا گیا۔

جج فرخ فرید بلوچ نے ریمارکس دیے کہ 10 بجے دلائل سن کر فیصلہ کریں گے۔

بعد ازاں سماعت شروع ہوئی تو جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کدھر ہے؟

ملزمہ سومیہ عاصم کو روسٹرم پر بلا لیا گیا۔

ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سومیہ عاصم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جی آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا۔

ان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ سومیہ عاصم نے تشدد نہیں کیا، سومیہ عاصم نے ملازمہ کو واپس بھیجنے کا بار بار کہا۔

ملزمہ کے وکیل نے بتایا کہ ڈھائی گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر بیٹھی جو اس وقت اٹھ نہیں پا رہی، سومیہ عاصم نے کم سن بچی کو اس کی ماں کو صحیح سلامت دیا۔

ملزمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ آج دوپہر کو جی آئی ٹی نے بچی کی ماں کو بلایا ہوا ہے، شام تک انتظار کرلیا جائے تو بہتر ہوگا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائے گی۔

وکیلِ صفائی نے کہا کہ کیا سومیہ عاصم کو جیل بھیجنا ضروری ہے؟

پراسیکیوشن نے ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔

جج فرخ فرید نے ریمارکس دیے کہ ملزمہ سومیہ عاصم تو ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہے، جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے تمام پہلوؤں پر تفتیش نہیں کی، کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟

جج فرخ فرید نے ریمارکس دیے کہ تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کے لیے کافی نہیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ مقدمے کی پہلی پانچ لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں، جس پر جج فرخ فرید نے کہا کہ میں یہاں ٹرائل کے لیے نہیں بیٹھا، درخواست ضمانت پر دلائل دیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ جے آئی ٹی گناہ گار قرار دے تو ضرور جیل جانا چاہیے، جج فرخ فرید نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کی جائے۔

جج فرخ فرید نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت کردی۔

وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ ہم کہتے ہیں ویڈیو موجود ہے ویڈیو لیں، کیا تفتیشی نے ویڈیو حاصل کی؟ بس اسٹاپ پر بچی کی تین گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے، کل آخری دن ہے پھر وہ ویڈیو کا ڈیٹا ختم ہو جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ پتا نہیں یہ اس کیمرے کی ویڈیو ہے یا نہیں۔

عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو لینے کی ہدایت کر دی، جج فرید خان نے ریمارکس دیے کہ تفتیشی کا کام دونوں فریقین سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔

کمرہ عدالت میں متاثرہ لڑکی کی بس اسٹاپ کی وڈیو لیپ ٹاپ پر چلا دی گئی۔

وکیل صفائی نے مؤقف اپنایا کہ ویڈیو کے مطابق متاثرہ لڑکی اور سومیہ عاصم بس اسٹاپ پر موجود تھے، ویڈیو کے مطابق متاثرہ لڑکی خود گاڑی کا دروازہ کھول کر اترتی ہے۔

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ کیس کے ملتوی ہونے سے ہمارے گواہان پر بھی اثرانداز ہونے کا خطرہ ہے، 2 گھنٹے بچی بس اسٹاپ پر صحیح سلامت بیٹھی نظر آرہی ہے، بچی ماں کے ساتھ بھی بس اسٹاپ پر بیٹھی ہے اور صحیح سلامت نظر آرہی ہے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ الزام ہے کہ سول جج کے گھر گئے تو بچی زخمی تھی اور رو رہی تھی، الزام لگایا گیا کہ بچی کا سر زخمی تھا اور کیڑے پڑے ہوئے تھے، بچی بس اسٹاپ پر ڈھائی گھنٹے بیٹھی رہی اور ایک بار بھی سر نہیں کھجایا۔

وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ میڈیکل رپورٹ 24 جولائی کی سرگودھا کی ہے، مقدمہ 25 جولائی کا ہے، الزام لگایا گیا کہ بچی پر روز ڈنڈوں سے تشدد ہوتا تھا، بھوکا پیاسا رکھا گیا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ بچی سرگودھا بھی جاتی ہے اور مہمانوں سے بھی ملتی ہے، سومیہ عاصم کے خلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے، تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی۔

ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی ویڈیو مقامی ہوٹل سے ملی۔

انہوں نے دلائل دیے کہ عدالت سے پہلے سومیہ عاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کردیا گیا، رپورٹ کے مطابق بچی صبح 3 بجے ہسپتال پہنچتی ہے، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟ طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی کو 5 بجے انجری ہوئی۔

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ پولیس کو کہا گیا کہ بچی اپنا بیان دینے کے حال میں نہیں، سرگودھا تک بچی بالکل ٹھیک گئی، کوئی علاج کی ضرورت نہیں تھی، 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد بچی کو طبی معائنے کی اچانک کیسے ضرورت پڑ گئی؟

انہوں نے کہا کہ اگر گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے، قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، کیس میں حقائق مسخ کیے گئے۔

وکیل صفائی نے مؤقف اپنایا کہ جے آئی ٹی کیوں بنی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ اراکین کون ہیں؟ کیا جے آئی ٹی کے اراکین پولیس افسران ہیں؟ جب اراکین پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کیوں شامل ہیں؟

جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہونا ہے، جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تاکہ اصل حقائق منظرعام پر آئیں، شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق کو منظرعام پر لانا ہوتا ہے۔

وکیل صفائی نے دلائل دیے کہ اگر بچی کو مارنا ہی مقصد ہوتا تو بچی سومیہ عاصم کے ساتھ کیوں بس اسٹینڈ پر پائی گئی؟ بچی تو خود سومیہ عاصم کے ساتھ موجود دکھائی گئی، کیا تفتیشی افسر نے بچی کے والدین کو شامل تفتیش کرنے کی توفیق کی؟ سومیہ عاصم کی تو زندگی کو خطرہ ہوگیا ہے، میڈیا پر مجرم بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ بچی کے والدین کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا جارہا؟ تاخیری حربے استعمال کرکے بیان کو تاخیر سے ریکارڈ کروایا گیا۔

جج فرخ فرید نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کیا کہ کیا موبائل فون کی سی ڈی آر لی گئی ہے؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ نہیں کال ریکارڈ ڈیٹا کیوں لیں گے؟

وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر کڑی سے کڑی نہیں ملا پارہا، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، والدین اور رشتہ داروں کے پولیس کو دیے گئے بیانات میں تضاد نظر آرہا ہے۔

انہوں نے دلائل دیے کہ بچی کے طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو فریکچر نہیں ہے، میڈیا سے سنا ہے کہ بچی کو فریکچر کا شک ہے، اگر شک کا لفظ آجائے تو کیس واضح ہوجاتا ہے، حقائق بتانے میں بددیانتی سے کام لیا جا رہا ہے۔

وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ سومیہ عاصم پر الزام لگایا کہ بچی کو تیزاب پلایا گیا، بچی کو بس اسٹینڈ پر چھوڑنے سومیہ عاصم گئیں تو انہیں پھنسایا گیا، واقعے کا پلان آخر کس کے کہنے پر بنایا گیا؟ پولیس نے سائڈ پلان کی تفتیش کرنے کی توفیق نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے واقعے میں ملوث دیگر افراد کا بیان ریکارڈ کرنا گوارہ نہیں کیا، سائڈ پلان میں تین چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے بچی کی اصل حالت دیکھی ہے، تینوں چشم دید گواہ سومیہ عاصم کے گھر موجود تھے ہی نہیں، جو کہانی بنائی گئی وہ تو جھوٹی ثابت ہورہی ہے، کون سا کیس رہتا ہے پھر۔

وکیل صفائی نے کہا کہ 7 جولائی کو مالی نے دیکھا بچی باغیچے میں مٹی کھا رہی تھی، الرجی اسی وجہ سے ہوئی، مٹی کھانے کی عادت سے بچی کو الرجی ہوئی جس کی دوائی بھی لے کر دی، فارمیسی کی سلپ بھی موجود ہے جہاں سے جِلد کی الرجی کی دوائی لے کر دی۔

انہوں نے دلائل دیے کہ ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف ڈرامہ دراصل سرگودھا میں بنایا گیا، تفتیشی افسر کو آخر سومیہ عاصم کی گرفتاری کیوں درکار ہے؟ سومیہ عاصم سے کیا برآمد کرنا ہے؟ کچھ ہے ہی نہیں۔

وکیل صفائی نے کہاکہ سومیہ عاصم شاملِ تفتیش ہونے کے لیے ہروقت تیار ہیں، وکیل صفائی کے دلائل مکمل ہو گئے۔

مدعی وکیل کے دلائل

مدعی وکیل نے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ تفتیشی افسر کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا کہ تفتیش کیسے کرنی ہے، عدالت بھی تفتیشی افسر کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی۔

مدعی وکیل نے کہا کہ کس بنیاد پر سومیہ عاصم اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے، کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے اور اس کو ضمانت دے دی جائے؟ اگر عورت کو ایسے ہی ضمانتیں ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہوجائے گا۔

جج فرخ فرید نے ریمارکس دیے کہ مرحوم پرویز مشرف کے دور میں ایسا ہی ایک کیس ہوا تھا۔

مدعی وکیل نے کہا کہ الزام لگایاگیاکہ بچی کے والدین نے بلیک میل کیا، کیوں ہوئے بلیک میل؟ حقیقت یہ ہے کہ بچی کے والدین سے رابطہ کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی، بچی کی طبی رپورٹ کو تو آج تک سومیہ عاصم کے وکلا نے چیلنج نہیں کیا۔

مدعی وکیل نے کہا کہ اتنے زیادہ زخم ہیں، کیا کوئی والدین اپنی بیٹی کو اتنا زخمی کر سکتے ہیں؟ کوئی اتنا تشدد کرسکتا ہے لیکن کبھی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی پر اتنا تشدد نہیں کرسکتے۔

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک بار نہیں، بچی پر کئی بار تشدد کیا گیا، بچی کے کچھ زخم بھر گئے، کچھ بھر رہے ہیں۔

مدعی وکیل نے کہا کہ کم سن بچی رضوانہ کی عمر 13 سے 14 سال ہے، قانون کے مطابق کم سن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی ایک جرم ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کم سن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماموں اور بچی کی والدہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، اس کے ساتھ ہی مدعی وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔

پراسیکوٹر وقاص حرال کے دلائل

پراسیکوٹر وقاص حرال نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی، طبی رپورٹ کے مطابق بچی رضوانہ کو 14 انجریاں ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچی کے کھوپڑی کی دائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے، بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی انجریاں ہیں۔

پراسیکوٹر وقاص حرال نے عدالت کو بتایا کہ ایک نہیں، بچی کو متعدد انجریاں ہیں، پسلیوں تک پر انجری ہے، ڈاکٹر نے تو معائنہ کرکے بتانا ہے کہ انجریاں کتنی ہوئی ہیں۔

سماعت کے دوران رضوانہ کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں۔

پراسیکوٹر وقاص حرال نے بتایا کہ وکیل صفائی طبی رپورٹ مانگ رہے، سب کچھ ریکارڈ پر دستیاب ہے، گواہان، طبی رپورٹ، شواہد سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔

پراسیکوٹر وقاص حرال نے ملزمہ سومیہ عاصم کی گرفتاری کی استدعا کردی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر بلیک میلنگ ہوتی رہی تو سومیہ عاصم نے پولیس کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کیا سومیہ عاصم نے کہیں پولیس کو کال کرکے کہا کہ بچی کے والدین بلیک میل کر رہے ہیں؟ انجریوں کو ثابت کرنے کے لیے تشدد کرنے والے آلے کی ضرورت ہے۔

پراسیکوٹر وقاص حرال نے بتایا کہ آلہ ضروری ہے تاکہ ثابت ہو سکے کہ واقعی بچی پر تشدد ہوتا رہا۔

وکیل صفائی نے جواب الجواب میں کہا کہ فریکچر ہونے کے ایک گھنٹے بعد سوجن ہوتی، طبی رپورٹ کے مطابق 6 گھنٹے بعد سوجن شروع ہوئی، طبی رپورٹ مدعی وکیل کے کیس کو سپورٹ کر ہی نہیں رہی، طبی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کہ انجری ہے، 6 ماہ پرانی نہیں۔

جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کیا کہ سچ کو تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے، شواہد ایمانداری سے جمع کریں، دباؤ نہ لیں، تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔

بعد ازاں عدالت نے سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کردی اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

گھریلو ملازمہ تشدد کیس

25 جولائی کو سرگودھا سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ بدترین تشدد کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا، اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا اور کہا تھا کہ ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے، مزید کہا کہ مقدمے کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی، تمام تر قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

26 جولائی کو پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 13 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد میں ملوث جج اور ان کی اہلیہ روپوش ہوگئے جس کی وجہ کیس کی تحقیقات میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔

28 جولائی کو وزیر اعظم کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے سول جج اسلام آباد کی گھریلو نوعمر ملازمہ پر تشدد کے کیس میں جج کی اہلیہ کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی ہم نے بچی سے بھی ملاقات کی ہے، بچی کی حالت اب بھی بہتر نہیں ہے، اور آکسیجن سپورٹ پر گئی ہیں۔

28 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کر دیا گیا۔

30 جولائی کو بچی کی طبیعت مزید بگڑ گئی جس پر اسے لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیے گئے۔

یکم اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سول جج کی اہلیہ و مرکزی ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 7 اگست تک توسیع کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024