نواب شاہ ٹرین حادثہ: ٹریک محفوظ ہونے پر خدشات بدستور برقرار
نواب شاہ کے قریب گزشتہ روز پیش آنے والے ٹرین حادثے کی مختلف وجوہات سامنے آ رہی ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ متعدد حادثات رونما ہونے کے باوجود ریلوے ٹریک محفوظ ہونے کے بارے میں خدشات بدستور برقرار ہیں۔
گزشتہ روز نواب شاہ کے قریب ہزارہ ایکسپریس کی کم از کم 10 بوگیاں پٹری سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں 30 مسافر جاں بحق جب کہ 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے اس حادثے کو ٹریک کے مخصوص حصے پر لائن ٹوٹنے، ایکسل کا مسئلہ یا دیگر تکنیکی مسائل کا نتیجہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ مسافر ٹرین جس طرح سے پٹری سے اتری اور بتدریج الٹتی گئی وہ واضح طور پر پٹری کی اس متاثرہ جگہ کے ساتھ پہیوں کے ٹکرانے کی نشاندہی کرتا ہے جوکہ شاید کمزور تھی یا پہلے سے ٹوٹی ہوئی تھی اور پٹری بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور وجہ ایکسل ٹوٹنا ہو سکتا ہے جس نے پہیوں کو جام کر دیا اور چیسز کو بوگیوں کی بھاری اسٹیل کی باڈی سے الگ کر دیا۔
متعلقہ ٹریک 105 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے لیے فٹ قرار دیے جانے کے باوجود ٹرین کے پٹری سے اترنے کی وجوہات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حادثہ کسی بھی وجہ سے ہوسکتا ہے، ریلوے میں حادثات کو ہمیشہ 3 پہلوؤں کے تحت جانچا جاتا ہے کہ یہ حادثہ مٹیریل کی خرابی، سسٹم کی خرابی یا انسانی غفلت کے نتیجے میں پیش آیا لیکن اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ حادثہ بظاہر مٹیریل کی خرابی یعنی لائن ٹوٹنے یا ٹرالیوں کے جام ہونے کی وجہ سے ہوا تاہم انسانی غلفت یا سسٹم کی ناکامی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے۔
تاہم ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تخریب کاری کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، لوگ جلد ہی حادثے کی اصل وجوہات کے بارے میں جان لیں گے۔
مین لائن-ون کا خان پور-کوٹری-خان پور سیکشن ایک طویل عرصے سے خستہ حالی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے رہے ہیں جو کئی بار جان لیوا بھی ثابت ہوئے، خاص طور پر گزشتہ 5 برسوں میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
2021 میں پاکستان ریلوے نے مزید جانوں اور املاک کے نقصان کو روکنے کے لیے خان پور اور کوٹری کے درمیان مکمل ٹریک کی بحالی کے لیے 30 ارب روپے کی درخواست کی تھی، تاہم پی ٹی آئی کی زیرقیادت گزشتہ حکومت اور پی ڈی ایم کی زیرقیادت موجودہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت طے شدہ ایم ایل-ون منصوبے کی وجہ سے اسے غیر ضروری قرار دیا اور منظوری میں تاخیر کی۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال بہت مایوس کن ہے کیونکہ خان پور سے کوٹری تک 470 کلومیٹر کے ٹریک کی بحالی کے لیے 30 ارب روپے منظور ہونا تاحال باقی ہیں، یہ ایک ایسا حصہ ہے جہاں متعدد حادثات رونما ہوچکے ہیں، خاص طور پر گزشتہ 4 سے 5 برسوں میں یہاں کئی حادثات ہوئے۔
پاکستان ریلوے کا منصوبہ ہے کہ 470 کلومیٹر خان پور-کوٹری سیکشن پر 15 کلومیٹر سے 25 کلومیٹر کے اہم حصوں کو نئے ٹریکس سے بدل کر بحال کیا جائے، اس میں کم خطرناک حصوں کی دیکھ بھال اور مرمت بھی شامل ہے۔
ایم ایل-ون منصوبے کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان ریلوے نے بحالی کے اقدامات کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ فنڈنگ اور تعاون کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد سکھر اور کراچی ڈویژن میں بدنام زمانہ ’خونی لائنز‘ پر حادثات کو روکنا تھا۔
عہدیدار نے انسانی جانیں محفوظ بنانے کے لیے حکمرانوں کی جانب سے عدم توجہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ٹریک کی وجہ سے اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں جانی نقصان اور لوگوں کے زخمی ہونے کے علاوہ ریلوے کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم وہ تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔