یوکرین کی جدہ مذاکرات میں 10 نکاتی امن فارمولے کی پیشکش
یوکرین نے سعودی عرب میں دو روز تک ہونے والے مذاکرات میں وسیع پیمانے پر متوقع 10 نکاتی امن فارمولہ تجویز کیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شرکا نے بتایا کہ یہ اجلاس ہفتے کے روز بحیرہ احمر کے ساحلی شہر جدہ میں شروع ہوا جب کہ اس اجلاس کے بارے میں یوکرین کے منتظمین نے کہا کہ اس میں تقریباً 40 ممالک کے نمائندے شامل ہوں گے لیکن روسی نمائندے اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
اجلاس کے ایجنڈے میں دو گھنٹے کی بات چیت اور عشائیے سے قبل مختلف وفود کی جانب سے دیے جانے والے تین گھنٹے کے بیانات شامل ہیں۔
اس سے قبل یوکرین کے صدارتی دفتر کے سربراہ نے نشر کیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ بات چیت آسان نہیں ہوگی لیکن سچ ہمارے ساتھ ہے۔
جدہ میں یوکرین کے وفد کے سربراہ نے مزید کہا کہ ہم میں بہت سے اختلافات ہیں، ہم نے کئی مؤقف سنے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اصول شیئر کریں، ہمارا کام پوری دنیا کو یوکرین کے گرد متحد کرنا ہے۔
روس نے گزشتہ سال 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا جو دارالحکومت پر قبضے کی اپنی کوشش میں ناکام رہا لیکن مشرقی علاقے پر قبضہ کر لیا، اب مغربی حمایت یافتہ یوکرین کی افواج ان علاقوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑ رہی ہیں۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے دفتر نے رواں ہفتے کہا کہ ملاقات میں ان کے 10 نکاتی امن فارمولے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس میں روسی افواج کا مکمل انخلا اور کریمیا سمیت یوکرین کی سرحدوں کے علاقے کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے، کریمیا کا 2014 میں روس نے الحاق کیا تھا۔
تاہم، روس یہ واضح کرچکا کہ کوئی بھی مذاکرات نئی علاقائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کر کرنے ہوں گے۔
جدہ میں ہونے ولا اجلاس جون میں کوپن ہیگن میں ہونے والی بات چیت کے بعد ہو رہا ہے، وہ اجلاس غیر رسمی بات چیت کے لیے منعقد کیا گیا تھا اور اس کا کوئی باضابطہ اعلامیہ سامنے نہیں آیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سعودی عرب میں امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔
چین نے اعلان کیا کہ وہ اپنے نمائندے لی ہوئی کو اجلاس میں بھیجے گا۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے کہا کہ اجلاس کے ذریعے سعودی عرب کی جانب سے مستقل امن کا باعث بننے والے حل تک پہنچنے کے لیے اپنے دفاتر کو بروئے کار لانے کی خواہش کو اجاگر کیا گیا ہے۔
تیل کی پالیسی پر روس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے خام تیل کے برآمد کنندہ سعودی عرب نے فریقین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور خود کو جنگ میں ممکنہ ثالث کے طور پیش کیا ہے۔