توشہ خانہ کیس: ٹرائل عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کل طلب
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو کل طلب کرلیا اور ان کے وکلا کو ہدایت کردی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قابل سماعت ہونے سے متعلق واپس بھیجی گئی درخواست پر اپنے دلائل دیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے الیکشن کمیشن کے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف توشہ خانہ کی کیس کی سماعت کی جہاں کمیشن کی جانب سے وکیل امجد پرویز چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل نیاز اللہ نیازی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل نیازاللہ نیازی نے کہا کہ ہمارے مقدمات سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کا انتظار کر لیں، جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں نے آج کا ٹائم دیا تھا لہٰذا الیکشن کمیشن اپنے دلائل شروع کرے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث کی مرضی دلائل دیتے ہیں یا نہیں، جس پر نیازاللہ نیازی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم دلائل دیں گے لیکن قومی احتساب بیورو (نیب)، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں کیس مقرر ہیں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کر دیا اور کہا کہ تمام تر دستاویزات ملزم نے اپنے دستخط کے ساتھ جمع کروائیں اس لیے ان کے قابل قبول ہونے سے متعلق کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔
امجد پرویز نے کہا کہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس بھیجا گیا اور توشہ خانہ کے تحائف سے نہ انکار کیا گیا اور نہ ہی اقرار کیا گیا اور کہا گیا یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور قومی خزانے میں جمع کروائے گئے چالان بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، تحائف کی شناخت کا معاملہ عدالت کے سامنے ہے، انہوں نے اپنے جواب میں تسلیم کیا کہ کون کون سے تحائف انہوں نے لیے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 58 تحائف وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو ملے، 14 تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زیادہ لگائی گئی جو خریدے گئے، ان کے مطابق 2 کروڑ 16 لاکھ 64 ہزار 600 کے چار تحائف خریدے گئے، ایک گھڑی، کف لنکس، ایک گھڑی ایک انگوٹھی، رولیکس گھڑیاں، آئی فون اور تحائف شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے کہا کہ انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ استغاثہ نے کوئی شہادت پیش نہیں کی کہ تحائف کی مالیت 10 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی جبکہ استغاثہ نے شواہد پیش کیے ہیں اور تحائف کی فہرست بھی تسلیم کی گئی ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ 19-2018 کے تحائف 20 فیصد ادا کرکے حاصل کیے گئے اور کہا گیا کہ جیولری کے تمام تحائف بیگم وزیراعظم کو ملے، فارم بی میں جیولری کے کالم میں کچھ نہیں لکھا گیا، قیمتی آئٹم کا کوئی لفظ ہی فارم بی میں موجود نہیں ہے، 342 کے بیان میں ملزم نے خود تسلیم کیا ہے۔
ملزم تسلیم کرے تو اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، وکیل ای سی پی
انہوں نے کہا کہ اصل میں جب ملزم خود تسلیم کرلے تو پھر اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، یہ بتائیں مجموعی تحائف کی اشیا کتنی ہیں، ملزم 342 کے بیان میں بھی مان گئے ہیں کہ کون کون سے تحائف توشہ خانہ سے لیے ہیں، 58 تحائف توشہ خانہ سے اس وقت کے وزیر اعظم اور بیگم وزیر اعظم کو ملے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ سے 30 ہزار سے کم مالیت کی جو چیزیں ہوتی ہیں وہ ویسے ہی دے دی جاتی ہیں، 30 ہزار سے کم مالیت کے تحائف کی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی، ریکارڈ میں بتایا گیا کہ 4 تحائف ایسے ہیں جن کو پیسوں سے خریدا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ان کے مطابق 2 کروڑ 16 لاکھ 64 ہزار 600 کے چار تحائف خریدے گئے، کابینہ ڈویژن نے فہرست بھی بھیجی لیکن اس کو بھی چھوڑ دیں تو انہوں نے خود 342کے بیان میں تسلیم کیا، گھڑی،کفلنگ،آئی فون، پرفیومز سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں، یہ ملزم کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق تفصیلات ہیں جو عدالت کو بیان کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تحائف 2 کروڑ 15 لاکھ میں خریدے گئے اور 342 کے بیان میں تسلیم بھی کیا گیا، 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کی مالیت تھی جوکہ 2 کروڑ 10 لاکھ میں خریدی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 20 فیصد پر توشہ خانہ سے تحائف خریدے اور باہر کہا جاتا ہے کہ ہم نے 50 فیصد پر خریدے، 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کے تحائف 20 فیصد پر خریدے گئے لیکن فارم بی میں جیولری کے کالم میں لکھا گیا کہ کوئی جیولری نہیں، چین، لاکٹ، بریسلٹ، ایئر رنگز جیولری نہیں ہے تو کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ملزم کا ماہر آئے تو بتائے کہ ان کو کیا کہا جائے، چئیرمین پی ٹی آئی نے 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کے تحائف 5 کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 فیصد رقم دے کر تحائف اپنے پاس رکھے گئے اور 342 کے بیان میں کہتے ہیں میرے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، چئیرمین پی ٹی آئی 342 کے بیان میں کہتے ہیں میں نے 95 لاکھ روپے ٹیکس بھی ادا کیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ 342 کے جواب میں چئیرمین پی ٹی آئی کہتے ہیں 20 فیصد ادائیگی اور ٹیکس ادائیگی کے بعد 2 کروڑ 80 لاکھ روپے سے کم اکاؤنٹ میں رہ گئے، 342 کے بیان میں کہتے ہیں کہ 3 کروڑ روپے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے ہیں، 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کی چیز 5 کروڑ 80 لاکھ روپے جو فروخت کی وہ فارم بی میں ڈیکلئیر نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ٹیکس اور 20 فیصد ادائیگی کی قیمت نکالیں تو رقم میرے اکاؤنٹ میں آئی ہے جو غلط ہے، 30 جون کو رات 12 بجے سب کچھ لاک ہے، فارم بی پبلک دستاویز ہے، قانون میں کہا گیا کہ جب کاغذات نامزدگی جمع کروائیں تو ٹیکس ریٹرن بھی جمع کروائیں، ٹیکس ریٹرن کانفیڈنشل ہوتا ہے، جس سے متعلق یہ کیس نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریٹرن پبلک کرنے پر کچھ وقت پہلے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) عہدیداروں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے، 30 جون 2019 کو 95 لاکھ روپے ٹیکس جو کہتے ہیں ادا کیا وہ ان کے ہاتھ میں تھا، 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کے فروخت شدہ تحائف انہوں نے اپنے گوشواروں میں ڈیکلیئر نہیں کیا۔
امجد پرویز نے کہا کہ ہم نے چئیرمین پی ٹی آئی کے چار گواہان کی درخواست اس لیے مسترد کی کیونکہ وہ ٹیکس کنسلٹنٹ تھے جبکہ جو 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کے تحائف انہوں نے فروخت کیے وہ انہوں نے کہیں ڈیکلیئر نہیں کیے، تحائف کی قیمت 10 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی اور انہوں نے 5 کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کی تو کون سی قیمت ڈیکلیئر کرنی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی نے کہا 30 جون 2019 سے قبل ان نے تحائف فروخت کیے، وہ قیمت ڈیکلیئر کرنی تھی، چئیرمین پی ٹی آئی پر الزامات الیکشن ایکٹ کے تحت لگائے گئے ہیں، 5 کروڑ 80 لاکھ روپے چئیرمین پی ٹی آئی نے اپنی دستاویزات میں ظاہر نہیں کیے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ امجدپرویز صاحب! یہ تمام باتیں غیر ضروری ہیں اور سوال کیا کہ 30 جون کے اختتام پر کتنے ظاہر کرنے تھے، 2 کروڑ 25 لاکھ روپے یا 10 کروڑ 70 روپے تھے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے چئیرمین پی ٹی آئی کو 5 کروڑ 80 لاکھ روپے ظاہر کرنے تھے جو نہیں کیے، جج ہمایوں دلاور نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ دو برسوں میں تو چئیرمین پی ٹی آئی پر الزام ہے کہ اثاثہ جات میں ظاہر کیا ہی نہیں، آپ کے تمام پوائنٹس میں نوٹ کر رہا ہوں۔
جج ہمایوں دلاور نے وکیل الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ 2021 پر آئیں جس پر الزام ہےکہ غلط اثاثہ جات ظاہر کیے، وکیل نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی قیمتی تحائف کا کہتے ہیں، قیمتی تحائف کا تو خانہ فارم بی میں ہے ہی نہیں، قانون میں تو قیمتی تحائف کا ذکر ہی نہیں، جیولری کا لفظ ہے جو لکھی نہیں گئی۔
امجدپرویز نے کہا کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کے پاس ایک بھی نہ گاڑی ہو اور نہ ہی جیولری ہو، 4 برسوں میں چئیرمین پی ٹی آئی کے پاس صرف چار بکریاں رہیں، کیا ماننے والی بات ہے، چئیرمین پی ٹی آئی تین گھروں کے مالک ہیں، 3 کنال کا گھر اہلیہ کا ہے، چار سال میں تینوں گھروں کی قیمت چئیرمین پی ٹی آئی نے 5 لاکھ ظاہر کی ہے، چئیرمین پی ٹی آئی کے پاس فارم بی کے مطابق اپنی ایک بھی گاڑی نہیں۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث سپریم کورٹ میں ہیں، ہائی کورٹ میں درخواستوں پر فیصلہ ہونا ہے، جس پر جج ہمایوں دلاوہ نے کہا کہ آج حتمی دلائل کا اخری دن ہے، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج تمام دلائل لاک ہوجائیں گے۔
جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ درخواست اگر منظور ہوگئی تو بات ہی ختم، دوسری صورت میں آپ حتمی دلائل دیں، اچھے طریقے سے دیں، آپ نوجوان ہیں، آپ کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، خواجہ حارث آجائیں گے تو پھر پنچنگ کریں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو حتمی دلائل کی ہدایت
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل مکمل ہوگئے، جس پر جج نے توشہ خانہ کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو ساڑھے گیارہ بجے دلائل شروع کرنے کی ہدایت کر دی۔
سیشن عدالت میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں پی ٹی آئی کے وکیل مرزا عاصم بیگ پیش ہوئے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ سیشن عدالت فیصلہ جاری نہیں کرسکتی۔
پی ٹی آئی کے وکیل عاصم بیگ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹہ لگایا اور اثاثہ جات پر دلائل دیے، جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو دلائل کا معاملہ ڈیڑھ گھنٹے سے بھی زیادہ کا نہیں۔
وکیل نے عاصم بیگ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کا انتظار کرلیں، جلدی کیا ہے، جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ جی بالکل! عدالت کو جلدی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کیوں نہیں روک رہی، آپ فیصلہ لائیں، اسٹے کا کوئی فیصلہ ہے تو سیشن عدالت لے کر آئیں۔
جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی کے وکیل سے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سیشن عدالت اگر جلدی کر رہی تو سپریم کورٹ میں یہ بات کیوں نہیں کرتے، بولنے کا طریقہ ہوتا ہے، آپ خواجہ حارث کی زبان بول رہے ہیں، غیرپیشہ ورانہ طریقہ کار مت اپنائیں اور اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ دکھائیں۔
جج نے کہا کہ سیشن عدالت نے بار بار کہا ہےکہ فیصلہ جاری نہیں کرسکتا، خواجہ حارث کو کہیں ساڑھے 12 بجے پیش ہوں اور سیشن عدالت نے ساڑھے بارہ بجے تک توشہ خانہ کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
’آپ کا دامن صاف ہے تو کیوں گھبرا رہے ہیں‘
سیشن عدالت میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران دوسرے وقفے کے بعد چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ میرا جمعہ عدالت کی وجہ سے رہ گیا ہے، جمعے کو کچہری کا وقت ساڑھے 12 ہوتا ہے، جس پر جج نے پوچھا کہ ہائی کورٹ میں کیا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث کے سپریم کورٹ میں دلائل جاری ہیں، خواجہ حارث آج اور کل شاید دستیاب نہ ہوں، ہم کہاں دوڑے جا رہے ہیں، جس پر جج نے کہا کہ خواجہ حارث نہیں تو آپ دلائل دےدیں، چئیرمین پی ٹی آئی کے اتنے وکلا ہیں۔
نیازاللہ نیازی ایڈووکیٹ نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں کبھی پہلے دلائل دینے سے بھاگا ہوں کیا جلدی ہے، ٹرائل تو کئی عرصہ چلتے ہیں، جس پر جج نے کہا کہ آپ کا دامن صاف ہے تو کیوں گھبرا رہے ہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ توشہ خانہ میں بی ایم ڈبلیو کا معاملہ بھی ہے، قوم جانتی ہے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ آپ کی قانونی ٹیم آپ سے مخلص نہیں، توشہ خانہ کیس کے لیے آج عدالت کو تین کالز کی گئیں، پی ٹی آئی نے درخواست کی کہ اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں زیرالتوا ہیں، پی ٹی آئی لیگل ٹیم نے کہا کہ خواجہ حارث آج پیش نہیں ہوسکتے جبکہ عاصم بیگ، نعیم پنجوتھا اور نیازاللہ نیازی عدالت موجود تھے اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجدپرویز نے اپنے حتمی دلائل 10 بجے تک مکمل کیے۔
سیشن عدالت کے جج نے کہا کہ ساڑھے 12 بجے وکیل عاصم بیگ پیش ہوئے اور کہا کہ خواجہ حارث ابھی اعلی عدلیہ میں مصروف ہیں، جس پر نیازاللہ نیازی نے کہا کہ بس یہی کہہ رہا ہوں کہ خواجہ حارث اعلیٰ عدلیہ میں مصروف ہیں، جج نے استفسار کیا کہ بیرسٹر گوہر علی اور نیازاللہ نیازی چئیرمین پی ٹی آئی کے سینئیر وکیل ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ نیازاللہ نیازی کو حتمی دلائل دینے کے لیے ہدایت کی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ میں دلائل نہیں دے سکتا۔
جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا کہ جواب دیں کیا آپ دلائل دے سکتے ہیں یا نہیں؟ نیازاللہ نیازی نے کہا کہ میں تو معاون وکیل ہوں، خواجہ حارث اور گوہرعلی دلائل دیتےہیں، جس پر جج نے کہا کہ تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں اس کیس میں اور کہا کہ خواجہ حارث اعلیٰ عدلیہ میں مصروف پیں تو سماعت میں 3 بجے تک وقفہ کیا جاتا ہے اور 3 بجے کے بعد دلائل دینے کا آخری موقع دیا جائےگا۔
جج نے کہا کہ اگر خواجہ حارث نہ آئے تو سیشن عدالت فیصلہ محفوظ کرلےگی، جس پر نیازاللہ نیازی نے کہا کہ کیس پر بہت خدشات ہیں، جج نے جواب دیا کہ مجھے کچھ نیا بتائیں۔
وکیل نیازاللہ نیازی نے کہا کہ میں ویسا نہیں کروں گا جیسے ہوتا رہا ہے، جج نے کہا کہ ایک بار تو معافی عدالت نے دے دی ہے، اس کے بعد نرمی نہیں دی جائے گی، پی ٹی آئی وکیل نے جج ہمایوں دلاور سے کہا کہ آپ جلدی غصے ہو جاتے ہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ عدالت سب وکلا کی عزت کرتی ہے لیکن عدالت کا ایک ڈسپلن ہے، جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میں بھی عدالت کا افسر ہوں، بدلہ لے سکتا ہوں، میرے ساتھ کچھ ہوا تو لوگ باہر کھڑے بھی ہوجائیں گے، اس کے ساتھ ہی عدالت نے ایک دفعہ پھر وقفہ کیا۔
پی ٹی آئی وکیل کی عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست
توشہ خانہ کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں ایک مرتبہ پھر شروع ہوئی تو اور وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر گوہرعلی سے پوچھا کہ کیا خبریں ہیں جبکہ وکیل گوہرعلی نے چئیرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کر دی۔
وکیل گوہر علی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قابل سماعت کے معاملے پر درخواست منظور کرکے معاملہ دوبارہ سیشن عدالت کو بھیجا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قابلِ سماعت کا معاملہ دوبارہ سیشن عدالت کو بھیج دیاہے لیکن گواہان کی درخواست پر آئندہ ہفتے نوٹس جاری ہوئے اور اسٹے نہیں ملا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی کی ٹرانسفر کی درخواستیں مسترد ہوگئی ہیں، جعلی فیس بک پوسٹس پر ایف آئی اے کو ڈائریکشن دی ہے، جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اور ان کا کیا جنہوں نے جعلی فیس بک پوسٹس لہرائی ہیں، اس بات پر امجد پرویز نے کہا کہ فیس بک پوسٹس لہرانے والوں پر آپ کو پیار آجاتا ہے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل پہلے ہی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دے چکے ہیں، اور عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو کل ذاتی حثیت میں طلب کر لیا۔
جج نے کہا کہ کل چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا پیش ہوں اور درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر دلائل دیں اور اس کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 8:30 بجے تک ملتوی کر دی۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سیشن عدالت میں توشہ خانہ کیس حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، سماعتوں کے ریکارڈ کے مطابق ٹرائل اپنے اختتامی مرحلے میں ہے، چیرمین پی ٹی آئی نے ٹرائل کے اختتامی مرحلے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے کو ترجیح دی ہے۔
سیشن عدالت نے بتایا کہ کیس کے قابلِ سماعت ہونے پر 8 جولائی کو الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیے، گوہرعلی خان نے خواجہ حارث کی قابل سماعت ہونے کے معاملے پر دلائل دینے کی یقین دہانی کروائی۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ ساڑھے 8 بجے اگر چئیرمین پی ٹی آئی کے وکلا پیش نہ ہوئے تو فیصلہ محفوظ کرکے سنا دیاجائےگا۔
عدالت نے قابل سماعت کے معاملے اور حتمی دلائل دینے کے لیے چئیرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو کل طلب کرلیا۔