مالیاتی جرائم کی روک تھام کیلئے اتھارٹی بنانے کا بل سینیٹ سے بھی منظور
وفاقی حکومت نے عجلت میں قانون سازی کا عمل جاری رکھتے ہوئے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے نئی اتھارٹی کے قیام کا بل گزشتہ روز قومی اسمبلی کے بعد آج سینیٹ سے بھی منظور کروا لیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت جاری اجلاس میں وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیررزم اتھارٹی بل 2023 ایوان بالا میں پیش کیا۔
وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس بل کو منظور کیا جائے، حنا ربانی کی جانب سے پیش کیا گیا بل کو قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے، اس بل میں تاخیر نہ کی جائے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ 12، 12 بل آرہے ہیں لیکن اتنے بل ایک دن میں کیسے پڑھے جا سکتے ہیں، ہمیں ربر اسٹیمپ نہ بنایا جائے، آج ہمارے ایوان پر ایڈیٹوریل لکھے جارہے ہیں، ایوان سے منظور کیے گئے 54 بل کی کیا ضرورت ہے۔
کئی سینیٹ اراکین نے بل کی منظوری کی مخالفت کی، رضا ربانی نے کہا کہ بل منظور کرنے کے بجائے کمیٹی کو بھیجا جائے۔
تاہم چیئرمین سینیٹ نے بل پر ووٹنگ کرائی اور بل کو اراکین کی اکثریت کی حمایت کے ساتھ منظور کرلیا گیا، بل کے حق میں 28 اور مخالفت میں 9 ووٹ آئے جب کہ رضا ربانی، کامران مرتضی، طاہر بزنجو اور عمر فاروق نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں عجلت میں قانون سازی کا عمل جاری رکھتے ہوئے اس بل کو منظور کرلیا تھا۔
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی جانب سے پیش کیے جانے والے بل میں نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیرارزم اتھارٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
ایوان نے قواعد معطل کرکے اور متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر بل کا جائزہ لیا تھا۔
حنا ربانی کھر نے امید ظاہر کی کہ مجوزہ اتھارٹی پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تعزیری اقدامات سے بچائے گی، جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے ہونے والی فنڈنگ پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ ہے۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2022 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کردیا تھا، اس فہرست میں شامل ممالک کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے قانونی، مالیاتی، ریگولیٹری، عدالتی اور غیر سرکاری شعبوں میں خامیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
بل کے مطابق اتھارٹی کی سربراہی چیئرمین کریں گے، جس میں وفاقی سیکریٹریز برائے فنانس، خارجہ امور اور داخلہ، گورنر اسٹیٹ بینک، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، قومی احتساب بیورو اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل اور اینٹی نارکوٹکس فورس اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل، قومی انسدا دہشت گردی اتھارٹی کے قومی کوآرڈینیٹر اور چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکریٹریز شامل ہوں گے۔
نئی قانون سازی کے مطابق مجوزہ اتھارٹی کے چیئرمین یا نصف ارکان کی درخواست پر اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔
حنا ربانی کھر نے نئی اتھارٹی کے حوالے سے وضاحت کی تھی کہ یہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی انسداد کی کوششوں کو ادارہ جاتی بنانے گی اور یہ ایف اے ٹی ایف کی دو ضروری شرائط ہیں۔
پہلے سے قائم نیکٹا اور حکومت کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو مجوزہ اتھارٹی کے تحت لایا جائے گا۔
پیمرا ترمیم بل سینیٹ میں پیش، اپوزیشن کی مخالفت کے بعد کمیٹی کو ارسال
پیمرا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ایوان بالا میں بل پیش کیا جب کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے احتجاج کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔
اراکین نے مطالبہ کیاکہ بل کمیٹی میں واپس بھجوایا جائے، جماعت اسلامی کے سینئٹر مشتاق نے کہا کہ ورکرز کی بہبود کا سہارا لے کر بل کے ذریعے سنسرشپ کو مضبوط کیا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بل سینیٹ میں پیش کرتے بل پر بارہ ماہ مشاورت ہوئی ، مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تعریف پر گیارہ ماہ مشاورت ہوئی، اس میں کوئی سزا نہیں صرف جرمانہ بڑھایا گیا ہے، موجودہ بل میں تعریف ڈریکونین ہے۔
اہہوں نے کہا بل میں غلطی کی گنجائش ڈالی ہے، پہلے چئیرمین پیمرا لائنسن منسوخ کر سکتا تھا چینل بند کر سکتا تھا ، اب یہ اختیار چئیرمین سے لیکر اتھارٹی کو دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی کم از کم اجرت اور بقایات کی ادیگی کے لیے 2 ماہ رکھا گیا ہے ، خلاف ورزی پر ایک لروڑ سزا اور حکومت اشتہار نہیں دے گی، ڈیجیٹل پلاٹ فارم پر وہی کنٹیٹ چلے گا جو ٹی وی پر چلتا۔
وفاقی وزیر نے کہا اتھارٹی میں پی بی اے کا بندہ ، میڈیا نمائندہ اور صحافیوں کو نمائندگی دی گئ ہے، دس فیصد کنٹینٹ پبلک سروس میسج ہو گا۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ سینٹر مشتاق احمد نے بل نہیں پڑھا، میں نے میڈیا سنسر شپ کو بھگتا ہے، میری جماعت اور قیادت نے بھگتا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتی جو کسی آواز کو سنسر کرے، اس کا گلا گھونٹے۔
انہوں نے کہا کہ پندرہ ماہ میں آزادی اظہار رائے عالمی سطح پر سات پوائنٹ بہتر ہوا ہے، کسی صحافی کو گولی نہیں لگی، کسی کی ہڈی پسلی ٹوٹی نہ ناک ٹوٹی، کوئی چلتا پروگرام اف ایئر نہیں ہوا۔
اس دوران اپوزیشن اراکین نے لاپتا صحافی عمران ریاض کے بارے میں سوال اٹھایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ حکومت عمران ریاض کے بارے میں بتائے۔
اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے بل کو متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔