• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:25pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:49pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:52pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:25pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:49pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:52pm

توشہ خانہ کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل کورٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

شائع August 3, 2023
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار 120 دنوں کے اندر شکایت دائر کرنے کا اہل ہوتا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت درخواست گزار 120 دنوں کے اندر شکایت دائر کرنے کا اہل ہوتا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل سنایا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وکیل خواجہ حارث اور بیرسٹر گوہر علی عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بھی موجود تھے۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ میں ایک چیز عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں، 31 جولائی کو دفعہ 342 کا بیان ہوا اور کل ہم نے گواہوں کی لسٹ عدالت میں جمع کرائی اور کہا کہ 24 گھنٹے میں گواہ دستیاب نہیں ہوسکتے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ٹرانسفر درخواست پر جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک ٹرائل کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے سکتی، اس میں کیا جلدی ہے کہ گواہ لانے کے لیے ایک دن بھی نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے حق دفاع ختم کرنے کا کل کا آرڈر بھی آج چیلنج کیا ہے اور ٹرائل کورٹ نے کہا آج 11 بجے دلائل دیں نہیں تو فیصلہ محفوظ کیا جائے گا، تاہم اس سے جج صاحب کا تعصب ظاہر ہوتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ابھی جج سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی ایک رپورٹ بھی آئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ جج کے فیس بک اکاؤنٹ سے وہ پوسٹ نہیں ہوئی۔

اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یکطرفہ رپورٹ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ یہ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ تو ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی منتقلی کی درخواست جانبداری کی بنیاد پر ہے، اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر جج جو کیس سن رہے ہیں وہ جانبدار ہیں، اس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس حوالے سے میں عدالت کے سامنے اپنی گزارشات رکھتا ہوں، لہٰذا عدالت ٹرائل کورٹ کو مزید کارروائی آگے بڑھانے سے روکے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارا سسٹم پرفیکٹ نہیں اس میں کچھ خامیاں ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ خامیاں ختم ہو سکیں اور میری خواہش ہے کہ ہم رولز میں یہ شامل کر سکیں کہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہو۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سب سے بڑا بوجھ اب اس عدالت کے اوپر ہے اور ہائی کورٹ نے ہماری درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے، جہاں پہلی درخواست توشہ خانہ کیس کو قابل سماعت قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہم عدالتوں میں انصاف کے لیے آتے ہیں، ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا نہیں، آج ہم یہاں ہیں تو کیا ٹرائل کورٹ کے جج ہمارا قانونی حق ختم کرکے فیصلہ محفوظ کردیں گے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ یہ کیس اب سی آر پی سی الیکشن کا نہیں بلکہ آئین کا کیس بن چکا ہے، آپ نے ہماری زیر التوا درخواستوں کو سن کر فیصلہ کرنا ہے کیونکہ ہماری کیس منتقل کرنے کی درخواست صرف تعصب کی بنیاد پر نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی اور ہائی کورٹ نے اگر کیس ریمانڈ بیک کیا تھا تو کسی اور جج کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کسی دوسرے جج کو آپ کی درخواست دوبارہ سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے کیس کو ایک دن وقفے کے بعد لگانے پر اتنا زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ وکلا جاکر پریس کانفرنس کریں تو اس سے کیا اثر پڑے گا، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیاسی کیسز سے متعلق ایک بحث صبح یہاں ہوتی ہے اور ایک شام کو ہوتی ہے اور شام میں جو بحث ہوتی ہے اس کا یہاں ہونے والی بحث سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شام کو ہونے والی بحث سے عوامی رائے بنتی ہے ان کے دیکھنے سننے والے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ اس عدالت کی سماعت میں تو زیادہ سے زیادہ پچاس سے ستر لوگ موجود ہوں گے، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس حوالے سے پارلیمان کو سوچنا اور قانون بنانے چاہئیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق پیمرا کا کوڈ اینڈ کنڈکٹ موجود ہے اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ نہیں ہوگا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ زیر التوا کیسز پر کسی فریق کو کوئی بات نہیں کرنی چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں الیکٹرانک میڈیا کی بات کر رہا ہوں کہ رات آٹھ سے بارہ بجے تک کیا چلتا ہے، پرانے وقت میں تو کہتے تھے کہ ججز اخبارات بھی نہ پڑھیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جج کا یہ کام نہیں کہ وہ سوچے کہ فیصلے سے عوام کیا سوچے گی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت قانون کے مطابق درست طور پر دائر نہیں کی گئی اور یہ شکایت براہ راست سیشن عدالت میں دائر نہیں ہو سکتی تھی، اس پرائیویٹ کمپلینٹ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کیا جا سکتا تھا۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ مجسٹریٹ نے ابتدائی طور پر کرنا کیا ہوتا ہے، اس میں کیا منطق ہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجسٹریٹ نے دستاویزات کی اسکروٹنی کرنی ہوتی ہے اور میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ منطق کیا ہے لیکن قانون کے مطابق یہی طریقہ کار ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے سامنے دلائل دے رہے ہیں آپ ہمارے مہمان ہیں، تاہم خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کردیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے کہ انہوں (پی ٹی آئی) نے بیان حلفی کے ساتھ کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست دی۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کیا جج کو انصاف نہیں کرنا چاہیے، ایف آئی اے رپورٹ آپ کے سامنے پڑی ہے، سپریم کورٹ ہو ہائی کورٹ یا ٹرائل کورٹ، جج کو بہت کچھ سننا پڑتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جج کو دل بڑا کرتے ہوئے ہمیشہ فائل کی طرف دیکھنا چاہیے، فائل میں سب کچھ موجود ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ جج پر فیس بُک پوسٹوں کے الزام سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ آگئی ہے، کیا رپورٹ کی بنیاد پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے تھی؟

وکیل نے کہا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ انہوں نے جج پر الزام لگانے سے پہلے فیس بُک پوسٹوں کا فرانزک نہیں کرایا، جبکہ قانون کے مطابق جج پر ایسے الزامات کے ساتھ بیان حلفی لگایا جاتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ نے کہا ہے کوئی بھی نا آیا تو فیصلہ محفوظ کر لیں گے، آپ ان کو بتائیں ہائی کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے، جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ دلائل میں نے شروع کرنے ہیں میں بھی بتا دوں گا۔

تاہم توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف اپیل پر ابتدائی دلائل مکمل کرلیے گئے اور عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔

توشہ خانہ کیس میں حق دفاع ختم کرنے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جہاں خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی گواہوں کی فہرست مسترد کر دی تھی جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے ٹرائل کورٹ کا آرڈر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دے کر فہرست کو مسترد کیا گیا، پہلے تین گواہ ٹیکس کنسلٹنٹ تھے جبکہ چوتھا گواہ ٹیکس کنسلٹنٹ نہیں تھا بلکہ وہ پی ٹی آئی کا سینٹرل انفارمیشن سیکریٹری تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے کہا کہ ملزم، گواہوں کا کیس سے تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے، وہ کہتے ہیں کیس اثاثوں اور ڈیکلریشن کا ہے۔

وکیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے حق دفاع ختم کرتے ہوئے گواہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی، ہم نے ٹرائل کورٹ کا وہ آرڈر چیلنج کیا ہے اور ہمارا مؤقف ہے کہ ہمارے گواہ ٹیکس کنسلٹنٹ اور اکاؤنٹنٹ ہیں جو کیس سے متعلقہ ہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ ہمارے گواہ کیس سے متعلقہ ہیں کیونکہ ٹیکس کنسلٹنٹ کا اس کیس سے تعلق بنتا ہے اور وہی بتا سکتے ہے کیونکہ ٹیکس فارم وہی بھرتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ٹیکس فارم چیئرمین پی ٹی آئی خود نہیں بھرتے بلکہ اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کو دستاویزات فراہم کرتے ہیں، جج صاحب کہتے ہیں کہ ٹیکس کنسلٹنٹ متعلقہ آدمی نہیں ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہی تو آکر یہ سب کچھ بتانا ہے، وہ ماہر ہیں انہوں نے ہی بتانا ہے کہ جو کیا وہ کیوں اس طرح کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے عمران خان کا دفاع کا بیان ہی نہیں دیکھا اور کچھ بھی دیکھے بغیر جج صاحب نے کہہ دیا کہ گواہ متعلقہ ہی نہیں اور ٹرائل کورٹ نے کہا کہ چارج کا ان گواہوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صرف ایک دن میں لسٹ مسترد کردی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی حقِ دفاع بحال کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت کی طرف سے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت ہونے کے خلاف اپیل، دوسری عدالت منتقلی درخواست اور حق دفاع بحالی کی درخواست اور حکم امتناع کی درخواست پر فیصلہ کل جاری ہوگا۔

مقامی عدالت میں حتمی دلائل کا آغاز

دوسری جانب اسلام آباد کی مقامی عدالت میں توشہ خانہ فوجداری کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کر دیا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے کے باعث عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی سے متعلق کیس کی سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ٹرائل روکنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی ہے۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نیاز اللہ نیازی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ہم ہائی کورٹ میں موجود تھے، میڈیا بھی وہاں موجود تھا اور عدالت نے سب کے سامنے کہا کہ ساڑھے 3 بجے تک ٹرائل کورٹ کو روکیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کوئی حکم امتناع نہیں دیا، جس پر وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ امجد پرویز جو دلائل دے رہے ہیں اس سے سننے کے لیے خواجہ حارث بھی موجود نہیں ہیں لہٰذا درخواست ہے کہ ساڑھے 3 بجے خواجہ صاحب آجائیں گے، اس کے بعد سماعت کریں۔

جج ہمایوں دلاور نے امجد پرویز کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالت فیصلہ محفوظ نہیں کر رہی، لیکن دلائل سنے جائیں گے، جس پر امجد پرویز نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کیے گئے اثاثوں کی تفصیلات پڑھیں اور مؤقف اپنایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں میں نہ تو کوئی گاڑی، نہ زیورات ڈیکلیئر کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے 300 مرلہ کے گھر اور دیگر اثاثوں کی کل مالیت صرف 5 لاکھ لکھی گئی ہے جبکہ 4 بکریاں 2 لاکھ روپے کی ڈیکلیئر کی ہوئی ہیں، یہ تو ان کے ڈیکلیئر اثاثوں کی تفصیلات کی صورت حال ہے، ان کے پاس نہ تو کوئی گاڑی، نہ زیور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ باقی تمام گھروں، زمین، فرنیچر کی مالیت صرف 5 لاکھ روپے لکھی گئی ہے، توشہ خانہ تحائف سے زیادہ بڑی بات ان کے دیگر اثاثوں کی تفصیلات ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں، 300 کنال کے گھر میں چلنے کے لیے گاڑی چاہیے ہوتی ہے، 10 کروڑ 70 لاکھ روپے کے توشہ خانہ تحائف ہیں جو اس کیس میں زیر بحث ہیں، توشہ خانہ تحائف انہوں نے بطور وزیر اعظم 25 فیصد قیمت پر حاصل کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ استغاثہ کا کیس یہ ہے کہ یہ حاصل شدہ تحائف اثاثوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے 4 بکریاں تو ہر سال ڈیکلیئر کیں، گاڑیاں، جیولری، تحائف ڈیکلیئر نہیں کیے، یہ تحائف حاصل کرنے کو مانتے ہیں، انکار نہیں کرتے۔

انہوں نے تحائف 5 کروڑ 80 لاکھ روپے میں بیچ دیے، ان کا دفاع ہے کہ انہوں نے تحائف بیچ دیے اور 30 جون 2019 کو تحائف ان کے پاس نہیں تھے اس لیے انہوں نے اپنے اثاثوں میں ڈیکلیئر نہیں کیے، انہیں یہ تفصیلات میں بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے 107 ملین کے تحائف 58 ملین روپے میں بیچ دیے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل کے دوران نیاز اللہ نیازی نے ایک بار پھر سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دلائل سننے سے نہیں روکا، عدالت اپنی کارروائی آپ کی منشا پر تو نہیں چلا سکتی۔

نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ خواجہ حارث کی موجودگی میں دلائل سنے جائیں، عدالت نے نیاز اللہ نیازی کی درخواست پر سماعت میں وقفہ کردیا اور وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کی معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دلائل مکمل ہو چکے ہیں اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔

سیشن عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 18 اکتوبر 2024
کارٹون : 17 اکتوبر 2024