توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کی بیان ریکارڈ کروانے کیلئے مہلت کی درخواست مسترد
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے دی گئی مہلت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے دوبارہ طلب کر دیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی، جج ہمایوں دلاور نے سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے غیر متعلقہ وکلا کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ پچھلی بار بھی کہا تھا، غیر متعلقہ وکلا عدالت نہ آئیں۔
وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت میں موجود ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کا آج بیان ریکارڈ ہونا ہے، خواجہ حارث سپریم کورٹ میں موجود ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی سے 35 سوالات پوچھےہیں، تحریری جواب بھی دینا باہتےہیں، عاشورہ میں وکلا کام نہیں کرتے۔
وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ توشہ خانہ کیس کے بیان ریکارڈ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بیان ریکارڈ کرنے کا مناسب وقت دےدیاجائے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مزید وقت دینے کی مخالفت کی اور سیکشن 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کی استدعا کی، امجد پرویز نے کہا کہ اگر ملزم 342 کے سوالنامہ میں غلط جواب بھی دے تو عدالت سزا نہیں دے سکتی، ٹرائل چل رہا ہے اور اس کیس کے دو گواہوں کا بیان ریکارڈ ہوچکا، ماتحت عدالتوں میں سوالنامہ دینے کا کوئی شق موجود نہیں ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ ملزم کو تحریری سوالنامہ دے کر عدالت نے ریلیف دیا ہے، سوالنامہ کے بعد مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، سوالنامہ دئیے ہوئے پانچ دن ہوگئے ہیں، دوبارہ کہونگا کہ سوالوں کے غلط جواب پر سزا نہیں ہوتی، عدالتی سوالنامہ کے سوالات ملزم کے الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے جواب کے مطابق ہے، کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی پیچھے مخصوص ایجنڈا ہوسکتا ہے۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ میرے فاضل دوست نے کئی بار کہا کہ ملزم نے ریلیف مانگا ہے، ہمیں کوئی کنسیشن نہیں چاہیے اور نہ ہی ہم مانگ رہے ہیں، کیا سوالنامہ دینا کوئی ریلیف ہے؟ کیا ہم نے کوئی ریلیف مانگا ہے ؟
شیر افضل مروت نے جج سے مکالمہ کیا کہ جو ہمارا قانونی حق ہے، ہم وہ مانگ رہے ہیں، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ مجھے ریلیف کے لفظ پر اعتراض ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت سے کوئی ریلیف نہیں لیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو کوئی ایسا ریلیف چاہیے بھی نہیں۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا گوہرعلی خان نے سوالنامہ وصول نہیں کیا ؟ وکیل گوہرعلی خان نے کیوں سوالنامہ وصول کرتے وقت اعتراض نہیں کیا؟ وکیل گوہرعلی خان نے خواجہ حارث سے پوچھ کر سوالنامہ وصول کیا۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی نے بیان ریکارڈ کروانے کے حوالے سے عدالت سے کوئی ریلیف مانگا؟ جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ برائے مہربانی ریلیف کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ ٹرائل کیس ہے، اور پوری قوم کی اس کیس پر نظریں ہیں، ٹرائل کے دوران کئی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، ملزم آپ کی عدالت کے سامنے موجود ہیں، اور ہم ٹرائل چاہتے ہیں، گواہوں کے بیانات اور ریکارڈ سے متعلق ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہے، بہت سارے شواہد موجود ہیں وہ ابھی پیش ہونے ہیں، شیر افضل مروت نے جواب جمع کرنے کے لیے ایک بار پھر وقت دینے کی استدعا کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت پہنچے، انہوں نے کہا کہ معزرت، سپریم کورٹ میں مصروفیت کی وجہ سے تاخیر سے عدالت پیش ہوا، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث صاحب خوش آمدید ، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے امجدپرویز کی نظر لگ گئی، صبح دیر سے اٹھاہوں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صبح ہسپتال گیاتھا، رات کو دیر سے سویا تھا، ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں التوا ہیں، دائرہ اختیار والی درخواست بھی اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہے، قانون کے مطابق توشہ خانہ ٹرائل کو دیکھنا چاہیے، چیئرمین پی ٹی آئی کے بیان کا معاملہ آئندہ ہفتے کرلیا جائے، تب تک ہائیکورٹ بھی فیصلہ کرلےگا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سارا دن درخواستیں ہی تیار کرتے رہتےہیں، چیئرمین پی ٹی آئی بیان کے حوالے سےوقت مانگ رہےہیں، رواں ہفتے میں ہی اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہو جائیں گی، اس کے بعد بیان ریکارڈ کروانے کے حوالے سے کوئی جواز نہیں رہےگا۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی روسٹرم پر آگئے، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ گوہرعلی خان نے گزشتہ سماعت پر بیان ریکارڈ کروانے کے لیے بھی وقت مانگا، گوہرعلی خان نے 26 جولائی کو پہلی بیان ریکارڈ کروانے کی درخواست دائر کی۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کی جانب سے بیان ریکارڈ کروانے سے متعلق تیسری درخواست اگئی ہے، آپ کو سوالنامہ 26 جولائی کو دیاگیا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیان ریکارڈ کروانے کے معاملے پر چھوٹی چھوٹی باتیں اجاتی ہیں، کچھ مس نہ ہوجائے، چیئرمین پی ٹی آئی کی تسلی نہ ہو۔
جج ہمایوں دلاور نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ جرح بھی آپ نے کی، آج بیان ریکارڈ ہو بھی جاتاہے تو کیا فیصلہ آج ہوجائےگا؟ جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ کو توشہ خانہ کے فیصلے سے کیوں ڈر لگ رہاہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی کورٹ میں بھاگوں یا ٹرائل کورٹ میں؟ کہیں تو مکمل توجہ دیں، تینوں عدالتوں میں بھاگ رہے ہیں، سانس لینے کا موقع نہیں نل رہا، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا یہ عمر کا تقاضا تو نہیں؟ جس پر عدالت میں قہقہے لگے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں درخواستیں ختم ہوتی ہیں تو ہم ٹرائل کورٹ آجائیں گے، میں انڈرٹیکنگ دینے کو تیار ہوں۔
وکیل خواجہ حارث نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کیا کہ آج آپ کچھ کر گزرے تو ذہن میں رہےگا کہ وقت نہیں دیا، اعلیٰ عدلیہ سے فیصلہ ہوگیا، میں اور چیئرمین پی ٹی آئی اگلے دن آپ کے پاس ہوں گے، ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر ہیں لیکن اب تک فیصلہ کوئی بھی نہیں ہوا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ 342 کا بیان ریکارڈ ان کے اپنے دستاویزات پر ہونا ہے، جو بیان الیکشن کمیشن کے سامنے دیا اس ہی پر 342 کا بیان ریکارڈ کروانا ہے، 342 کے بیان ریکارڈ کروسنے سے کوئی تعصب نہیں دکھایاجائےگا۔
وکیل الیکشن کمیشن کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کا آج 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کی استدعا کی گئی، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ خواجہ حارث آپ کو وقت دیا گیا، آپ نے بیان ریکارڈ نہیں کروایا، 3 بجے تک آپ کے پاس بیان ریکارڈ کروانے کا وقت ہے، آج تیسرا دن ہے، آج چیئرمین پی ٹی آئی اپنا ریکارڈ بیان کروا دیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کہہ رہے میں نے دستاویزات کو ابھی مکمل نہیں پڑھا، چیئرمین پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں کہ مجھے وقت چاہیے، ہائیکورٹ کا فیصلہ ہونے دیں کیونکہ بیان ریکارڈ کرنے کا حق متاثر ہورہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی گواہان کےبیانات ریکارڈ کرواتے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے، گواہان کے بیانات ریکارڈ کرواتے وقت چیئرمین پی ٹی آئی کا نمایندہ صرف ایک دن مقرر ہوا، اگر دلائل بھی سن لیں تو فایدہ نہیں، فیصلہ آپ نہیں کر سکتے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کیا کہ مجھے تو کل بیانات دیے گئے ہیں، جج ہمایوں دلاور آپ کی لیگل ٹیم آپ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 35 سوالات دیے، میں کوئی وکیل تو نہیں ہوں، مجھے تو بیانات کو خود پڑھنا ہے ابھی، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اگر خواجہ حارث چاہیں تو ایک ایک سوال آپ کو بتا اور سمجھا جا سکتا ہے، خواجہ حارث، انتظار پنجوتھا اور شیر افضل کے ہوتے کیا فکر ہے؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ مجھے کوئی ڈر نہیں، میں سب پڑھ کر بیان ریکارڈ کروانا چاہتاہوں، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ سب وکلا کو کمرہ عدالت سے رخصت کردیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو سمجھائیں اور بیان ریکارڈ کروائیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گن پوائنٹ پر کیسز نہیں سنے جاتے، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ڈیڑھ سو سے زائد کیسز ہیں، شاملِ تفتیش بھی ہونا، معمول کے مطابق حالات نہیں، میں مطمیئن ہوں گا تو بیان ریکارڈ کرواؤں گانا۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ عدالت نے کافی وقت دیا آپ کو، آج عدالت آپ کو مزید وقت نہیں دےگی، 3 بجے تک کا وقت ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ 3 بجے تک یا بیان ریکارڈ کروائیں گے یا نہیں کروائیں گے۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 3 بجے تک چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کروانے کی مہلت دے دی۔
توشہ خانہ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ حارث کی جانب سے 342 کے بیان قلمبند کرنے کی کارروائی کو ملتوی کرنے کی درخواست دائر کردی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہائیکورٹ میں معاملہ پنڈنگ تھا اور یہاں کاروائی چلائی جاتی رہی، چیئرمین پی ٹی آئی کو ہائیکورٹ کی ڈائیری برانچ سے نیب نے اٹھایا، اگلے دن پولیس لائین میں عدالت لگا کر پیش کر دیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور اس عدالت میں پیش کیا گیا، سیشن عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے فردجرم بھی نہیں پڑھا۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ یہ وہی دن ہے جب فردجرم پڑھایاگیا اور آپ نے کہا اٹھیں اور چلیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فردجرم عائد کرتے وقت جرم چیئرمین پی ٹی آئی کو پڑھایاگیا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کبھی سماعت بائیکاٹ نہیں کی، ایسا کہہ بھی کیسے سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی پر کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوا، میں بار بار کہتاہوں۔
جج نے کہا کہ کیا آپ اپنا حلف نامی جمع کروائیں گے کہ فرد جرم عائد نہیں ہوئی؟ کیا حلف نامہ جمع کروا سکتے ہیں کہ فردجرم آپ کے سامنے نہیں پڑھی گئی، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ افسوس ہوا تھاکہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا اور سیشن عدالت میں سماعت جاری رہی، فردجرم کے حوالے سے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کا حق روکا گیاہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیشن عدالت کی پولیس لائینز منتقلی پر بھی اعتراض ہواتھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو غیرقانونی طور پر گرفتار کرکے فردجرم کے لیے سیشن عدالت پیش کیا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کیا کہ جرت کیسے ہوئی یہ کہنے کی کہ میں نے عدالت کا بائیکاٹ کیا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تین اپیل کی درخواستیں اعلی عدلیہ میں زیر التوا ہیں، فردجرم کبھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پڑھ کر ہی نہیں سنایاگیا، نہ فردجرم پڑھا، نہ سیشن عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کا جواب لیاگیا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جب ہم عدالت سے باہر چلے گئے تو فرد جرم اسکے بعد پڑھا گیا، 7 دن دیے گئے تھے کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے، میں نے درخواست دی کہ سماعت پیر تک ملتوی کی جائے لیکن وہ ہماری استدعا مسترد کی گئی، ہائیکورٹ نے سات دن دیے اور اس عدالت نے تیسرے دن فیصلہ کر دیا، اس عدالت نے 15 منٹ میں فیصلہ جاری کر دیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے آرڈر جاری کرنا ہے تو پہلے لکھنا ہوتا ہے لیکن اس عدالت نے زبانی فیصلہ پہلے سنایا، کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بھی تیسرے روز سیشن عدالت نے فیصلہ سنادیا، چار گھنٹوں پر محیط سماعت کا فیصلہ عدالت نے 15 منٹ میں سنا دیا، کیس قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ کیا سیشن عدالت نے آپ کو زبردستی کہا تھا کہ قابل سماعت ہونے کے معاملے پر دلائل دیں؟ آپ دلائل بھی دیتے رہے، چائے بھی پیتے رہے، یہاں جونیئر وکیل بھی موجود ہیں، ایمانداری دکھائیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایمانداری دیکھا رہاہوں، جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ ایمانداری نہیں دکھا رہے، کچھ اور دکھا رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے دوبارہ طلب کرلیا۔
دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت میں توسیع
دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش ہوئے، جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کی رخصت کے باعث سماعت ملتوی ہوگئی.
چیئرمین پی ٹی آئی کو عبوری ضمانت میں 15 اگست تک توسیع کردی گئی، چیئرمین پی ٹی آئی تھانہ کھنہ اور تھانہ بھارہ کہو کے مقدمہ میں پیش ہوئے۔
190 ملین پاونڈ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی احتساب عدالت میں پیش
چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی 190 ملین پاونڈ کیس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت میں پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی اور بشر بی بی عدالت پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی توشہ خانہ نیب انکوائری میں بھی جج محمد بشیر کی عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت کے جج جسٹس محمد بشیر کی رخصت کے باعث سماعت ملتوی یکم اگست تک ملتوی کردی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی 6 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا طاہر عباس سپرا کی عدالت پہنچے، جہاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی 6 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے شامل تفتیش ہونے کی پوری کوشش کی لیکن شامل تفتیش نہیں کیا، پولیس نے آف دی ریکارڈ بتایا وہ محرم ڈیوٹیاں کریں دہشت گردی سے نمٹیں یا آپ کو شامل تفتیش کریں، 10محرم کو بھی ہم نے شامل تفتیش ہونے کے لئے پولیس کو لکھا لیکن کوئی جواب نہیں ملا، ویڈیو لنک انہوں نے نہیں کرنا بیان یہ ریکارڈ نہیں کر رہے۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پورے پاکستان کے لئے چھٹیاں ہیں ہمارے لیے نہیں، ہماری بس ہو گئی ہے ہم بھی انسان ہیں، پولیس نے لاہور آکر تفتیش کر لیں جیسے کرنا ہے کر لیں۔
جج طاہر عباس سپرا نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ میرے معمولات میں آپ دخل اندازی نہ کریں،پراسیکیوٹر نے کہا کہ آج کسی وکیل نے ایس پی انویسٹی گیشن کو کال کی ہے کے ہم شامل تفتیش ہونا ہے، محرم میں تفتیشی افسر دستیاب نہیں ہوتے یہ ثبوت دیں انہوں نے شامل تفتیش ہونے کی کوشش کی۔
عدالت نے کہا کہ 26 جولائی کو سماعت ہوئی تھی، آپ شامل تفتیش ہونے کے لیے عاشورہ والے دن درخواست دے رہے ہیں، کیا اس دن کا انتخاب آپ نے خود کیا، شعیب شاہین نے کہا کہ ہم جب بھی شامل تفتیش ہوئے اتوار کو ہوئے، عدالت نے کہا کہ یہ عام نوعیت کا کیس نہیں، پولیس عاشورہ کے بعد کل بھی شامل تفتیش کے لیے بلا سکتے تھے۔
عدالت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا کورٹ کی تبدیلی سے متعلق فیصلہ دکھا دیں ، پہلے ہوتا تھا پولیس بلاتی تھی آپ نہیں جاتے تھے، اب آپ کہہ رہے ہیں ہم شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں پولیس شامل تفتیش نہیں کررہی۔
زاہد آصف ایڈووکیٹ نے کہا کہ طاہر کاظم کے بجائے تفتیشی افسر سے رابطہ کرتے، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں پانچ ضمانتیں ہوچکی ہیں، تین کیسز میں جج صاحب ان سے شواہد مانگ رہے ہیں، عدالت کہہ رہی ہے مطمئن کریں کہ کیس بنتا بھی ہے یا نہیں، ہم روزانہ کی بنیاد پر انصاف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
9 مئی کے واقعات، جعل سازی، اقدام قتل کے کیسز کی سماعت
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں 9 مئی کے واقعات، جعل سازی، اقدام قتل کے کیسز کی سماعت ہوئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت میں 15 اگست تک توسیع کردی گئی، ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے احکامات جاری کیے۔
سائفر انکوائری اور طلبی کا نوٹس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر انکوائری اور طلبی کا نوٹس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا، چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایف آئی اے انکوائری کالعدم قرار دینے کی استدعا کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آڈیو لیکس سے متعلق سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، ایسا معاملہ جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس پر کریمنل پروسیڈنگ کرنا آرٹیکل 10اے کی خلاف ورزی ہے، ایف آئی اے کو ایسی کوئی انکوائری کرنے کا اختیار نہیں ہے، انکوائری اور جاری شدہ نوٹس غیر قانونی ہیں،کالعدم قرار دیا جائے۔