• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

سینیٹ اجلاس: مخالفت کے بعد چیئرمین نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل ڈراپ کردیا

شائع July 30, 2023
سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی — فوٹو: ڈان نیوز
سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی — فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق بل حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی مخالفت کے بعد ڈراپ کردیا۔

وزیر مملکت شہادت اعوان کی طرف سے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق بل پیش کرنے کی اجازت طلب کی گئی جس کو چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی اجازت سے مؤخر کردیا۔

چیئرمین سینیٹ نے پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل دوبارہ ایوان میں لانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ آج بل مؤخر کردیا ہے تاکہ اگلے ورکنگ ڈے پر اس کو لے آئیں، ایسا نہ کہیں کہ چھٹی کے دن اجلاس بلایا گیا، صرف اس لیے بل مؤخر کیا ہے تاکہ موقع نہ دیں ان لوگوں کو بات کرنے کا، ورکنگ ڈے پر لے آئیں گے بل کوئی بات نہیں۔

سینیٹ کے رکن ہمایوں مہمند نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثنااللہ شاید اس بل کی صورت میں تحریک انصاف کو انتخابات سے روکنے کی بات کر رہے ہیں۔

ہمایوں مہمند نے کہا کہ ایک ایک شق سے یہ بو آرہی ہے کہ یہ تحریک انصاف کے خلاف ہے، اگر ایسا کرنا ہے تو پھر مارشل لا لگائیں۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آج انسداد پرتشدد انتہا پسندی کا بل سینیٹ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت پیش کر رہی ہے، حکومت کے تیور بتا رہے ہیں کہ اس کو کمیٹی بھیجنے، اس پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اسی وقت اس کو منظور کر لیں گے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ ایک بہت ہی خوفناک بل ہے جس سے پرتشد انتہا پسندی ختم نہیں ہو گی بلکہ بڑھے گی، بل کے سیکشن 5 اور سیکشن 6 ڈریکونین (خوفناک) ہیں، یہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کا بل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کی کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی جماعت کو ریاستی جبر کے ذریعے مائنس کرنے، ختم کرنے کی کوشش غلط ہے، اس سے آئندہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں، لیڈرشپ کو مقابلے کا یکساں میدان ملنا اور صاف شفاف انعقاد بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ حکومت اس بل کو ہر صورت میں کمیٹی بھیجے اور قواعد و ضوابط کو پامال نہ کرے، پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ، انگوٹھا چھاپ اور بے کار نہ بنائیں۔

بل کا متن

پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا ہے جس کی قانون میں ممانعت ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا جو پرتشد انتہا پسند ہو، دوسرے کو طاقت کے استعمال، تشدد اور دشمنی کے لیے اکسانا شامل ہے۔

بل کے مطابق شیڈیول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پرتشدد انتہا پسندی ہے، پرتشد انتہا پسندی کی تعریف کرنا اور اس مقصد کے لیے معلومات پھیلانا پرتشدد انتہا پسندی میں شامل ہے۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر حکومت مطمئن ہو کہ کوئی شخص یا تنظیم پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہے تو اسے لسٹ ون اور ٹو میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہے، جس کا سربراہ خود پرتشدد ہو، یا تنظیم نام بدل کر دوبارہ منظر عام پر آئی ہو۔

لسٹ ٹو میں ایسا شخص شامل ہے جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہو، پرتشدد ادارے کا لیڈر یا حصہ ہو، پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرتا ہو، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی عائد کرے گی۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈر یا فرد کی پاکستان کے اندر نقل و حرکت یا باہر جانے پر پابندی عائد کرے گی۔

مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی، حکومت پرتشد تنظیم کے لیڈر، عہدیدار اور اراکین کی سرگرمیوں کی نگرانی کرے گی۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران، اراکین کا پاسپورٹ ضبط کرے گی، انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں ہوگی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر ، عہدیدارن، اراکین کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا، پرتشدد تنظیم کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہوگی، کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، رکن یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔

حکومت پرتشدد فرد کو علاقہ چھوڑنے یا علاقے میں رہنے کی ہدایت کرے گی، حکومت پرتشدد شخص اور اہل خانہ، بہن بھائی، رشتہ داروں کے اثاثوں کی چھان بین کرے گی اور پرتشدد شخص کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت متعلقہ شخص کو ڈی ریڈیکلائزیشن کی تربیت دے گی، پرتشد شخص کا پاسپورٹ ضبط کر لیا جائے گا، بیرون ملک سفر کی اجازت نہ ہوگی، پرتشدد شخص کا اسلحہ لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد شخص کے اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے، کوئی مالیاتی ادارہ قرض نہیں دے گا، پرتشدد شخص کو کسی بھی سطح پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو گی، حکومت پرتشدد تنظیم یا ادارے کے رویے کو دیکھ کر اسے لسٹ ون یا ٹو سے نکالنے کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ تنظیم یا فرد 30 ایام کے اندر جائزہ کمیٹی کے سامنے درخواست دائر کرے گا، درخواست مسترد ہونے پر ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوگی، متعلقہ محکمہ کسی بھی وقت فرد یا تنظیم کو لسٹ سے نکال سکتا ہے، ڈی لسٹ ہونے کے بعد فرد یا تنظیم کو چھ ماہ تک زیر مشاہدہ رکھا جائے گا، وقت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پرتشدد افراد کی بحالی اور ڈی ریڈیکلائزیشن کے لیے ڈی ریڈیکلائزیشن سینٹر قائم کرے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت پرتشدد انتہا پسندی کے مقابلے کا ریسرچ سینٹر قائم کرے گی، تعلیمی ادارے پرتشدد انتہا پسندی کے اقدام کی حکومت کو فوری اطلاع دیں گے، تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا اس کی پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہل خانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا، پرتشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہوگا۔

جرم ناقابل ضمانت اور قابل ادراک ہوگا، معاملے کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا، پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو تین سے دس سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔

اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے پانچ سال تک قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث تنظیم کو پچاس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، تنظیم تحلیل کر دی جائے۔

قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو بیس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے، معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی دس سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔

بل میں مزید کہا گیا ہے کہ جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہوگا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے سربراہ اور اراکین کو گرفتار کرکے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں بارہ ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے۔ متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔

ملکی ذخائر کو 16 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وزیر خزانہ

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ذخائر کو 16 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ہمیں اب میثاق معیشت پر اتفاق کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا 11 ماہ کا وقت انتہائی مشکل تھا، دنیا چاہتی تھی کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے اور اس کا تماشہ بنے لیکن ہماری بڑی واضح پالیسی تھی کہ پاکستانی اپنے عزائم کو وقت پر پورا کرے گا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) یا نو آئی ایم ایف۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ میں پارلیمان کے باہر اور اس کے اندر بھی بات کرتا رہا ہوں، ہمارا پلان بی تیار تھا کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوتا تو ہمیں کیسے آگے چلنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی مختلف پیش گوئیاں کی گئیں، لیکن ہم نے ہر ادائیگی وقت پر کی اور آج ملکی ذخائر بھی 14 ارب ڈالر ہوگئے ہیں اور ان میں مزید بہتری لاکر 16 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریل کے اختتام پر ایک ریٹنگ ایجنسی نے رپورٹ دی کہ پاکستان اسٹیٹ بینک کے پاس ذخائر 3.7 ارب ڈالر رہ گئے ہیں اور اس کو مئی یا جون میں 3.7 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں، لہٰذا ملک ڈیفالٹ کر جائے گا جس پر میں نے جواب دیا تھا کہ ذخائریقناً اتنے ہیں لیکن ہر ادائیگی وقت پر ہوگی اور ملک ڈیفالٹ بھی نہیں کرے گا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ جب چین نے فروری میں تعین کرلیا کہ پاکستان تمام کام کر چکا ہے تو انہوں نے اپنے بینکوں کو گرین سگنل دیا، 6 ماہ کے اندر ہم نے کمرشل بینکوں کو 6 سے 7 ارب ڈالر واپس کیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ستمبر میں کافی ادائیگیاں کرنی ہیں لہٰذا کوشش ہے کہ ذخائر کو 15 ارب ڈالر تک پہنچائیں، تین برس سے آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار تھا، میں نے تمام کام مکمل کیے ہیں، کل ورلڈ بینک کی میٹنگ ہے جس کے بعد ان کو 6 ہفتوں کا وقت لگے گا اور ستمبر میں ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستان کو ساڑھے 4 سو ارب ملنے ہیں جس کا تمام کام مکمل ہو چکا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بلوچستان کے ایک رکن نے 10 ارب روپے کا حساب مانگا ہے، اس رقم میں سے 8.7 ارب دیے جا چکے ہیں اور 1.3 ارب آؤٹ اسٹینڈنگ تھا، مزید کہا کہ این ایف سی کا بھی میں نے آٹو پر لگایا ہوا ہے جس کا جو بنتا ہے مہینے میں اس کو پہنچ جاتا ہے، اسٹیٹ بینک اس کا کسٹوڈین ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تو 15.8 ارب روپے آؤٹ اسٹینڈنگ تھے اور یہ حکومت 10 ارب روپے دے چکی تھی اور اب 7 ارب آؤٹ اسٹینڈنگ ہیں اور اس ادائیگی میں کچھ وقت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ایک رقم التوا میں ہے وہ ہے 12 ارب روپے کی، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ 6 ارب دینے کے لیے راضی تھا، لیکن میں نے زبردستی ان سے 12 ارب منظور کرائے اور 12 جون تک بلوچستان حکومت کو سوئی معاہدے کی تجدید کرنی تھی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایسی کیا غلطیاں ہوئیں کہ ترقی کا سفر رک گیا تاکہ وہ غلطیاں دوبارہ نہ ہوں، پاکستان کی جی 20 گروپ میں شامل ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ میثاق معیشت ہونا چاہیے اور قوم کا اس کا گواہ بنانا چاہیے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024